مہاراشٹرا ‘ اپوزیشن کو محاسبہ کی ضرورت

   

اِس قدر اُکتا گیا دل جھوٹے وعدوں سے مرا
جب حقیقت سامنے آئی تو افسانے لگے
ملک کی دو ریاستوں جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا کے انتخابی نتائج کا آج اعلان کردیا گیا ۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی زیر قیادت مہایوتی اتحاد کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی ۔ یہ کامیابی ایگزٹ پولس میںدکھائی گئی کامیابی سے بھی بڑی رہی ہے جبکہ جھارکھنڈ میں جے ایم ایم زیر قیادت انڈیا اتحاد نے اپنا دبدبہ برقرار رکھا ہے اور وہاں بھی جے ایم ایم کو بھی جتنی توقع ظاہر کی گئی تھی اس سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ حالانکہ کچھ ایگزٹ پولس میں بی جے پی کو جھارکھنڈ میں بھی کامیاب دکھایا جا رہا تھا لیکن جے ایم ایم ۔ کانگریس اور آر جے ڈی اتحاد نے سبھی توقعات کو غلط ثابت کرتے ہوئے جھارکھنڈ میں اپنا اقتدار برقرار رکھا ہے اور شاندار کامیابی حاصل کی ہے ۔جہاںتک مہاراشٹرا کی بات ہے تو خود بی جے پی نے بھی اپنی توقع سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے اور اپوزیشن کو توقع سے زیادہ ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ مہاراشٹرا ملک کی بڑی ریاستوں میںسے ایک ہے اور مہاراشٹرا میں اقتدار اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ بی جے پی کیلئے یہ زیادہ اہمیت کی حامل کامیابی اس لئے بھی ہے کیونکہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی زیر قیادت اتحاد کو شدید عوامی ناراضگی کے سبب شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ریاست کے 48 کے منجملہ 30 ارکان پارلیمنٹ اپوزیشن مہا وکاس اگھاڑی کے منتخب ہوئے تھے ۔ اس شاندار جیت کے چھ ماہ میںہی مہا وکاس اگھاڑی کوا سمبلی میںاس قدر بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے اپوزیشن اتحاد کو محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس انداز سے انتخابی مہم چلائی گئی تھی اور جن مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا تھا اور جن امیدواروںکو موقع دیا گیا تھا جن حلقوں پر انتخاب لڑا گیا تھا ان سارے امور پر توجہ دیتے ہوئے بحیثیت مجموعی سارے نتائج کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اپوزیشن جماعتوں کی لگاتار اور مسلسل شکست کی وجہ سے ان جماعتوں کے کارکنوں اور قائدین کے حوصلے پست ہوتے ہیں اورا یسے میں بی جے پی کو اپوزیشن کی رہی سہی حکومتوں کو بھی ارکان اسمبلی کو خرید کر زوال کا شکار کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ جب کیڈر اور کارکنوں کے حوصلے پست ہوجائیں تو اس کے اثرات لازمی طور پر پارٹیوں پر مرتب ہوسکتے ہیں۔
مہاراشٹرا میں جس طرح کی ہزیمت کا اپوزیشن کو سامنا کرنا پڑا ہے وہ توقعات کے برخلاف ہے ۔ مہا وکاس اگھاڑی میں شامل تمام جماعتوں کانگریس ‘ شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) اور این سی پی ( شرد پوار ) کو مشترکہ طور پر شکست کی وجوہات کا انتہائی باریک بینی سے اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر جائزہ لینا چاہئے ۔ اس بات پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ تینوں جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کو کامیابی دلانے میں کیوں کامیاب نہیں ہو پائیں اور جن حلقوںمیں اتحادی جماعتوں کے امیدوار تھے ان کے حق میں ووٹ کیوں منتقل نہیں کروائے جاسکے ۔ اکثر و بیشتر ریاستوں میںیہ دیکھا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں برسر اقتدار بی جے پی کے خلاف رائے عامہ ہموار تو کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ عوامی رائے کو ووٹوںمیں تبدیل کرنے اور اپنے حق میں ووٹوں کے استعمال کو یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ یہ ایک بڑی کمزوری ہے اور بی جے پی اپنے پاس الیکشن جیتنے کی ایک بڑی مشنری رکھتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں بی جے پی رائے عامہ خلاف ہونے کے باوجود بھی انتخابات میں لگاتار کامیابیاں حاصل کرتی چلی جا رہی ہے ۔ تینوں جماعتوں کو اپنے اپنے طور پر شکست کی وجوہات کا جائزہ لینا چاہئے اور پھر مشترکہ طور پر بھی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے یا پھر اتحاد کو ختم کرنے سے مسئلہ کا حل نہیں برآمد ہوسکتا ۔ تینوں جماعتوں اور اس کے قائدین کو شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کی وجوہات کا جائزہ لینے اور اپنا اپنا محاسبہ کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے ۔
صرف کچھ عوامل کو شکست کی وجوہات قرار دے کر ان جماعتوں کو بری الذمہ نہیں ہونا چاہئے ۔ جب تک بی جے پی کی انتخابی مشنری سے نمٹنے اور عوام کے موڈ کو سمجھنے کے دوسرے طریقے دریافت کرنے اور ووٹ حاصل کرنے کی جامع حکمت عملی نہیں بنائی جاتی اس وقت تک بی جے پی اور اس کی انتخابی مشنری سے نمٹنا آسان نہیں رہے گا ۔ انتخابات عوامی رائے کا امتحان ہوتے ہیں اور عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے عوام کے موڈ اور ان کی نبض کو سمجھنے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ تینوں ہی جماعتوں کو اس کراری ہار کی اجتماعی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عوام کے درمیان پہونچ جانا چاہئے اور اپنی اپنی خامیوں اور ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں دور کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔
جھارکھنڈ ‘عوام کا مثبت ووٹ
جھارکھنڈ میں بھی انتخابی نتائج کا آج اعلان ہوگیا اور توقعات کے برخلاف چیف منسٹر ہیمنت سورین کی قیادت میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ ‘ کانگریس اور آر جے ڈی کے اتحاد نے شاندار کامیابی حاصل کی ۔ بی جے پی کو توقع کے مطابق کامیابی نہیں مل سکی بلکہ یہ شکست بھی اس کی توقع سے زیادہ کراری کہی جاسکتی ہے ۔ بی جے پی نے جس طرح سے جھارکھنڈ میں انتخابی مہم میں منفی ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی وہ کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ بی جے پی کے تقریبا تمام قائدین نے جھارکھنڈ میں در اندازوں کا مسئلہ اٹھاکر عوامی جذبات کے استحصال کی کوشش کی تھی لیکن اسے کامیابی نہیں مل سکی ۔ بی جے پی نے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف کھلے عام تقاریر کیں اور ہندو ۔ مسلم کارڈ کھیلتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی تاہم ریاست کے عوام نے اس منفی ایجنڈہ کو مسترد کرتے ہوئے مثبت رائے کا اظہار کیا ہے اور مثبت سوچ کے ساتھ ووٹ دیا ہے ۔ اس کامیابی کے ساتھ ہیمنت سورین حکومت کی ذمہ داروں میںمزیداضافہ ہوگیا ہے ۔ اسے عوامی توقعات کی تکمیل کیلئے مزید عزم و حوصلے کے ساتھ کام کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔