مہاراشٹرا میں نئی سیاسی صف بندیاں

   

گندی سیاست میں ڈھل گئی انسانیت تمام
آپس کی بھائی چارگی آخر کدھر گئی
ملک بھر میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی مستقبل کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ کئی جماعتیں حالیہ عرصہ میں ہوئے انتخابات میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اس طرح کے فیصلے کرتی نظر آ رہی ہیں۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں مہاراشٹرا میں جس طرح سے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کا صفایا ہوا تھا اور انڈیا اتحاد کو شاندار کامیابی ملی تھی اس کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات میں بھی انڈیا اتحاد کو اقتدار ملے گا ۔ تاہم نتائج اس توقع کے بالکل برعکس رہے ۔ شیوسینا ادھو ٹھاکرے ‘ این سی پی اور کانگریس کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے درمیان محض پانچ مہینوں کے وقت میں مہاراشٹرا میں چالیس لاکھ ووٹوں کا اضافہ ہوا ۔ یہ مسئلہ الگ سے بحث کا موضوع ہوسکتا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ انڈیا اتحاد کو شکست ہوئی تھی ۔ مہاراشٹرا میں مقامی اور غیر مقامی بھی ایک اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی نے ریاستی سطح کی جماعتوں کو شکست دینے کیلئے ان میں پھوٹ ڈالوائی اور علیحدہ گروپس کو ساتھ لے کر کامیابی حاصل کی ۔ اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ شیوسینا اور مہاراشٹرا نو نرمان سینا کے درمیان اتحاد کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ شیوسینا میں راج ٹھاکرے کا ماضی میں اہم رول رہا تھا ۔ تاہم بعد میں ادھو ٹھاکرے سے اختلافات کے بعد انہوں نے اپنی الگ جماعت مہاراشٹرا نو نرمان سینا قائم کرلی تھی ۔ وہ علیحدہ شناخت بنانے میں تو کامیاب ہوئے لیکن انتخابی سیاست پر وہ اثر انداز نہیں ہوسکے تھے اور ان کی پارٹی کو کوئی بڑی کامیابی ابھی تک مل نہیں پائی ۔لگاتار شکستوں اور ادھو ٹھاکرے کی زیر قیادت شیوسینا کے کمزور موقف کو دیکھتے ہوئے اب دونوں قائدین اتحاد کے امکانات تلاش کرنے لگے ہیں۔ راج ٹھاکرے نے مہاراشٹرا کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چھوٹے اختلافات کو خاطر میں نہ لانے سے اتفاق کیا ہے تو ادھو ٹھاکرے نے بھی اختلافات کو دور کرتے ہوئے مہاراشٹرا اور مراٹھی کے حق میں ساتھ مل کر کام کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے ۔ دونوں قائدین کے یہ بیانات الگ الگ دئے گئے ہیں تاہم اہمیت کے حامل ضرور ہیں۔
ٹھاکرے برادران اگر اختلافات کو دور کرتے ہوئے ساتھ مل کر کام کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیتے ہیں تو یہ دونوں ہی پارٹیوں کے حق میں بہتر ہوسکتا ہے ۔ دونوں اگر مشترکہ مہم چلاتے ہوئے مہاراشٹرا بھر کے دورے کرتے ہیں اور خاندانی وراثت کو بحال کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ اس کے بہتر نتائج دونوں ہی کے حق میں دیکھنے میں آئیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مہاراشٹرا ہو یا پورا ملک ہو عوام حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں۔ انہیں بیروزگاری کا مسئلہ درپیش ہے تو مہنگائی بھی آسمان کو چھونے لگی ہے ۔ سرکاری ملازمتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں تو عوام کو دو وقت کی روٹی ملنا بھی محال ہوتا جا رہا ہے ۔ حکومتوں کا جہاں تک سوال ہے تو وہ عوام کو اختلافی مسائل میں الجھاتے ہوئے کام کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ عوام کی توجہ حقیقی اور بنیادی مسائل سے ہٹاتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ مہاراشٹرا میں بھی کئی مسائل ہیں اور ان پر رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے عوام کی تائید و حمایت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ عوام سے رابطوں کے پروگرامس بناتے ہوئے ان تک رسائی حاصل کی جائے تو یہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں معاون ہوسکتا ہے ۔ جہاں تک اختلافات کی بات ہے تو یہ قصہ پارینہ ہوچکے ہیںاور ان کو دور کرنے کیلئے بھی پہل ہوسکتی ہے ۔ جس طرح دونوں ہی ٹھاکرے برادران نے کہا کہ مہاراشٹرا اور مراٹھی کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے معمولی اختلافات کو فراموش کیا جاسکتا ہے ۔ ایسا کیا جانا چاہئے ۔
جہاں تک راج ٹھاکرے کا سوال ہے تو اس معاملے میں ادھو ٹھاکرے کو قدرے احتیاط سے بھی کام لینے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی اعتبار سے راج ٹھاکرے کا کوئی بھی موقف پائیدار اور دیرپا نہیں رہا ہے ۔ انہوں نے راست طور پر جہاں بی جے پی کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا تھا وہیں انہوں نے بالواسطہ طور پر کئی مرتبہ بی جے پی کی مدد بھی کی ہے ۔ ادھو ٹھاکرے نے اتحاد کیلئے جو شرط رکھی ہے وہ بھی درست ہے ۔ ان کی شرط ہے کہ راج ٹھاکرے ایسی جماعتوں سے تعلقات نہ رکھیں جو مہاراشٹرا اور مراٹھا عوام کے خلاف کام کرتی ہیں۔ اس بات کا انہیں شیواجی کے مجسمہ کے سامنے عہد کرنا ہوگا ۔ اگر اس اتحاد کیلئے پیشرفت ہوتی ہے تو یہ جہاں شیوسینا اور مہاراشٹرا نو نرمان سینا کیلئے بہتر ہوگا وہیں عوام کے حق میں بھی اچھا ہوسکتا ہے اور بی جے پی کیلئے سیاسی مشکلات میں اضافہ کا باعث بھی ہوسکتا ہے ۔
غزہ کی صورتحال بہتر بنائی جائے
غزہ پٹی کی صورتحال اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے باجود بگڑتی جا رہی ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے فوجی کارروائیوں کا سلسلہ برقرار رکھا گیا ہے اور درجنوں نہتے فلسطینی باشندے شہید ہوتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی تو کی ہے لیکن اب وہ حماس کے وجود سے ہی انکار کرنے میں مصروف ہے اور حماس کے نام پر فلسطینی باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارتا چلا جارہا ہے ۔ خود اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ پٹی میں بیس لاکھ فلسطینی انتہائی مشکل ترین حالات کا شکار کردئے گئے ہیں۔ معصوم بچے تک بنیادی ضروریات کی تکمیل کیلئے بلک رہے ہیں۔ معمر اور ضعیف افراد اور دوسروںمیں نفسیاتی مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ ایک وقت کی روٹی حاصل کرنے مشکل ہو رہی ہے ۔ پینے کیلئے پانی تک دستیاب ہونا مشکل ہوگیا ہے اور ادویات کی قلت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ یہ انتہائی غیر انسانی صورتحال ہے اور اس کو بہتر بنایا جانا چاہئے ۔ امریکہ ہو یا علاقہ کے دوسرے ممالک ہو یا عالمی اور بین الاقوامی ادارے جات ہوں سبھی کو اس صورتحال کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ فلسطینی عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کیلئے خاص طورپر عرب اور اسلامی ممالک کو آگے آنا چاہئے ۔ فلسطینیوں کو بتدریج ختم کرنے کی مہم روکی جانی چاہئے ۔