مہا کمبھ پر سیاسی تکرار

   

اترپردیش کے پریاگ راج میں جاری مہا کمبھ میلے پر اب سیاسی بحث و تکرار بھی شروع ہوگئی ہے ۔ اس میلے میں کروڑوںافراد کی شرکت کا دعوی کیا جا رہا ہے اور اس کیلئے تیاریاں بہت پہلے سے شروع کردی گئی تھیں۔ تاہم یہ تیاریاں ناکافی دکھائی دے رہی تھیں۔ ابتدائی ایام میں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی دکھائی دے رہا تھا ۔ کہیںسے کوئی شکایت سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ لوگ مذہبی جذبہ کے تحت مہا کمبھ میںشرکت کر رہے تھے ۔ اشنان کر رہے تھے اور خوشیوں ک اظہار بھی کر رہے تھے ۔ تاہم جیسے جیسے وقت گذرا اور عوام کی زیادہ تعداد وہاں پہونچنے لگی تو پھر بد انتظامیوںاور مشکلات کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر یہیںسے الزامات اور جوابی الزامات بھی شروع ہوئے ۔ الزامات و جوابی الزامات تو ہمیشہ سے چلتے رہے ہیں تاہم جو واقعات پیش آئے تھے ان کے نتیجہ میں اترپردیش کی یوگی اور مرکز کی مودی حکومت کے دعووں اور انتظامات کی قلعی کھلنی شروع ہوگئی ۔ مہا کمبھ میں پہلے تو خیموں میں آگ لگی ۔ اس خبر کی تشہیر ہونے نہیں دی گئی ۔ کہیں سے کوئی اطلاع آگئی اور یہ خبر عوام میںضرور آگئی تاہم اس میں ہونے والے نقصانات کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی ۔ یہی دعوی کیا گیا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ۔ مہا کمبھ میں خیموںمیں آگ لگنے کا محض ایک واقعہ پیش نہیں آیا ہے ۔ ایک سے زائد واقعات پیش آئے ہیں اور ان کے نقصانات کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی ہے ۔ اسی طرح مہا کمبھ میں بھگدڑ مچ گئی ۔ اس خبر کو چھپانا ممکن نہیں تھا اور جیسے تیسے کرتے ہوئے صورتحال پر قابو پانے کے بعد محض 30 افراد کی جانیں تلف ہونے کی بات کہی گئی ۔ حالانکہ مہا کمبھ پریاگ راج میں ہو رہا ہے تاہم اس میںسارے ہندوستان سے لوگ مذہبی جذبہ کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی لوگ اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ ایسے میں انتظامات بھی اسی کے مطابق ہونے چاہئے تھے ۔ انتہائی باریک بینی سے تمام امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے اقدامات کئے جانے چاہئے تھے جو نہیں کئے گئے ۔ اس کے نتیجہ میں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ مچ گئی اور اس میں بھی 18 افراد کی موت ہوگئی ۔
یہ سب کچھ محض اس لئے ہوا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے مہا کمبھ کے پرسکون انعقاد کو یقینی بنانے کی بجائے اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دی گئی ۔ یہ تشہیر شروع کردی گئی تھی کہ مہا کمبھ کے انعقاد کے ذریعہ اترپردیش میں بی جے پی نے آئندہ اسمبلی انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنالیا ہے ۔ اس طرح یہ واضح ہوگیا تھا کہ حکومت کا اصل مقصد و منشاء سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے یہاں آنے والے افراد کو سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے بد انتظامی پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور تنقیدیں بھی کی گئیں۔ ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی نے تو اسے مہا کمبھ کی بجائے مرتیو کمبھ ( موت کا کمبھ ) قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ کسی بھی تنقید کو خاطر میں نہ لانے والے چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ اس پر بھڑک اٹھے اور انہوں نے ممتابنرجی پر کروڑوں ہندووں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کا الزام عائد کردیا ۔ بی جے پی نے ممتابنرجی کو مخالف ہندو قرار دینا شروع کردیا ۔ یہ دراصل بی جے پی کی جانب سے مذہبی جذبات کے استحصال کی روایت کا حصہ ہے ۔ کسی بھی مسئلہ کی اگر نشاندہی کی جاتی ہے تو بی جے پی اسے ہندووں کے مذہبی جذبات سے جوڑدیتی ہے اور خود بری الذمہ ہوجاتی ہے ۔ یہ حکومت کا طریقہ کار نہیں ہونا چاہئے اور یہ انتہائی مذموم اور افسوسناک حرکت ہے ۔ تنقید کا جواب دینے اور الزامات کی وضاحت کرنے کی بجائے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے بی جے پی اور یوپی حکومت خود ہندووں کی زندگیوں اور ان کے جذبات سے کھلواڑ کر رہی ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔
بی جے پی کو یہ فکر لاحق ہونے لگی ہے کہ اس نے جو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا اور جس کی گودی میڈیا کے ذریعہ خوب تشہیر بھی کی جا رہی تھی وہ شائد کامیاب ہونے نہیں پائے گا ۔ اسی لئے سیاسی تکرار شروع کردی گئی ہے اور تنقیدیں کرنے والوںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنی ناکامیوں کو قبول کرتے ہوئے ان کو سدھارنے کی کوشش کی جاتی تاکہ جو کروڑوںلوگ مہا کمبھ میں شرکت کر رہے ہیں ان کو راحت ملتی اور انسانی جانوں کا جو اتلاف ہوا ہے اسے روکا جاتا ۔ تاہم بی جے پی ایسا کرنے تیار نہیں ہے ۔