’ میں نے حجاب کا دفاع کیا ‘ اللہ نے میرا دفاع کیا ‘ ۔ بی بی مسکان خان

,

   

حجاب ہمارا دستوری حق ہے ۔ باطل کے خلاف آواز اٹھانے پر مجھے فخر ہے ‘ کرناٹک سے تعلق رکھنے والی دلیر دختر ملت سے بات چیت

محمد ریاض احمد
حیدرآباد ۔ 8 فروری ۔ شیر میسور ٹیپو سلطان کے جاہ و جلال، رعب و دبدبہ اور اپنے وطن عزیز ہندوستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کے اُس جلال اور وطن سے محبت نے انگریزوں پر ایسی ہیبت طاری کردی تھی کہ وہ صرف ٹیپو سلطان کے خیال سے ہی کانپ جاتے تھے۔ حضرت ٹیپو سلطان شہید کا قول ہے ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ آج شیر میسور کے اس قول کو منڈیا پری یونیورسٹی کالج کی طالبہ بی بی مسکان خان نے عملی شکل میں پیش کردیا اور 100 سے زائد زعفرانی گیدڑوں کا اس لڑکی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ زعفرانی اسکارف اپنی گردنوں میں ڈالے گیدڑوں نے جیسے ہی برقعہ میں زیب تن بی کام سیکنڈ ایر کی طالبہ بی بی مسکان خان کو اپنی گاڑی پارک کرکے کالج کی جانب بڑھتے دیکھا، مذہبی نعرے لگاتے ہوئے ملت کی اس ’’شیرنی‘‘ کی جانب جارحانہ انداز میں بڑھنے لگے۔ محمد حسین اور نور فاطمہ کی اس دلیر بیٹی نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اس کا پیچھا کرنے والے بزدل گیدڑوں کو چیخنے چلانے اور بھونکنے پر مجبور کردیا۔ وہ گیدڑ صرف بھونکتے رہے اور بی بی مسکان خان ایک فاتح شیرنی کی طرح تنہا آگے بڑھتی رہی۔ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب اس نے کالج کے ایک ذمہ دار سے کہا کہ حجاب کرنا برقعہ پہنا میرا بنیادی حق ہے اور کوئی مجھے اپنے اس دستوری حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ میرے حجاب کرنے سے کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ بی بی مسکان خان کے والد محمد حسین خاں نے روزنامہ سیاست اور سیاست ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری بیٹی نے جس طرح مخالفین کا مقابلہ کیا، وہ صرف اور صرف اللہ رب العزت کی مدد ہے۔ اس نے حجاب کا دفاع کیا اور اللہ نے اس کا دفاع کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی بیٹی نے فرقہ پرستوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ انہوں نے تمام محب وطن ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اُن کی بیٹی مسکان خان اور افراد خان کیلئے دعا کریں۔ واضح رہے کہ اس واقعہ کے بعد نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں مسکان کا ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ فرقہ پرستوں کے خلاف جرأت و بے باکی اور ہمت و بہادری کی علامت بن گئی۔ روزنامہ سیاست اور سیاست ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بی بی مسکان جسے اب ’’کرناٹک کی شیرنی‘‘ کہا جارہا ہے، نے بتایا کہ 100 سے زائد لڑکوں نے جو زعفرانی اسکارف اور شال ڈالے ہوئے تھے، کالج میں باحجاب داخل ہوتے ہی اُن کی جانب ’’جئے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ جواب میں انہوں نے بھی اللہ اکبر کے نعرے بلند کئے اور بے خوف آگے بڑھتی رہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں مسکان بی بی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے حق کا دفاع کیا جس پر انہیں فخر ہے اور اپنے ہندوستانی ہونے پر اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔ اس سوال پر کہ بڑی تعداد میں لڑکے جب جارحانہ انداز میں اُن کی جانب بڑھ رہے تھے، کیا آپ کو ڈر محسوس نہیں ہوا؟ مسکان نے کہا ’’جی نہیں! ڈرنے کی کیا بات ہے، ہم اپنے حق کی لڑائی لڑرہے ہیں‘‘۔ اس سوال پر کہ وہ کتنی عمر سے حجاب کرتی ہیں، مسکان نے بتایا کہ وہ کم عمری سے ہی حجاب کرتی ہیں۔ مسکان نے مزید کہا کہ ان میں جو عزم و حوصلہ اور برائی و فرقہ پرستی کی گندگی سے مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوا، وہ صرف اور صرف دین اسلام کے باعث پیدا ہوا۔ آپ کو بتادیں کہ مسکان کے والد محمد حسین خان نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ ان کی بیٹی دیکھتے ہی دیکھتے سارے ہندوستان میں ظالموں کے خلاف مظلوموں کی آواز بن جائے گی اور قومی و بین الاقوامی میڈیا اس کے انٹرویو کیلئے گھر پر اُمڈ پڑے گا۔ مسکان کے مطابق ان کے والد نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں سکھایا کہ بیٹا! کبھی ڈرنا نہیں، ہمت سے آگے بڑھنا اور ظلم کے آگے دلیری سے مقابلہ کرنا کیونکہ تم کوئی غلط کام نہیں کررہی ہو بلکہ اپنے حق کیلئے آواز اُٹھا رہی ہے۔ مسکان نے یہ بھی بتایا کہ اُن کی امی جان نور فاطمہ تھوڑا سا ڈری ہوئی تھیں کہ کثیر تعداد میں لڑکے ہیں ، وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن اللہ نے میری حفاظت کی۔ ہندوستانی لڑکیوں خاص کر دختران ملت کے نام پیام میں کرناٹک کی دلیر لڑکی نے کہا کہ ہمارا ملک ایک عظیم سکیولر اور جمہوری ملک ہے۔ یہاں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ایسے میں مسلم لڑکیوں اور خواتین سے حجاب ترک کرنے کیلئے نہ کہا جائے۔ انہوں نے چیف منسٹر کرناٹک بسواراج بومائی کو بھی پیام دیا کہ ہم اپنے مذہب پر چلتے ہیں اور دوسرے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی کو کچھ مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم میں اتحاد ہونا چاہئے کیونکہ اتحاد ہی سے ترقی ممکن ہے۔ جبکہ ہماری ریاست میں صرف حجاب کے نام پر تعلیمی شعبہ کو برباد کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کو فوری روکنا چاہئے۔