جماعت اسلامی الیکشن میں کس کے ساتھ؟ کونسل کی رکنیت اور وقف بورڈ کی ممبر شپ

   

قیادت دو حصوں میں تقسیم، صدر مجلس کے قریبی افراد بی آر ایس کے حق میں، مسلمانوں کے نام پر ذاتی مفادات کو ترجیح، کارکنوں میں موضوع بحث

حیدرآباد۔/15 نومبر، ( سیاست نیوز) مسلمانوں کی قیادت بچوں کا کوئی کھیل نہیں بلکہ حقیقی ایماندار اور دیانتدار قیادت کو رہنمائی کیلئے نہ صرف قربانیاں دینی پڑتی ہیں بلکہ حکومتوں سے ٹکرانا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کی بدقسمتی کہیئے کہ ملک بھر میں مسلمانوں کی ایک بھی قیادت سنجیدہ اور بے لوث دکھائی نہیں دیتی۔ مسلمانوں کے نام پر سودا بازی یا پھر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل موجودہ قیادت کے دعویداروں کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔ مسلم مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی کو منفرد مقام حاصل تھا اور یہ مقام اس وقت تک رہا جب تک قومی اور ریاستی سطح پر قیادتیں بے لوث رہیں۔ اب صورتحال برعکس ہے اور سیاسی پارٹیوں سے روابط اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن چکی ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش میں جب مقامی سیاسی جماعت کی سرپرستی میں یونائٹیڈ مسلم فورم قائم کی گئی تو جماعت اسلامی بھی اس کا حصہ تھی۔ فورم کے اغراض و مقاصد میں طئے کیا گیا کہ فورم سے وابستہ کوئی شخص سرکاری عہدہ حاصل نہیں کرے گا لیکن جب فورم کے ایک ذمہ دار کو اردو اکیڈیمی کا صدر مقرر کیا گیا تو جماعت اسلامی نے بطور احتجاج علحدگی اختیار کرلی تھی۔ بعد میں جماعت کی قیادت بھی فورم سے مختلف نہیں رہی اور ذمہ داروں نے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے مقامی جماعت کے اشارہ پربرسراقتدار بی آر ایس کی کٹھ پتلی کا رول ادا کیا۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات قریب ہیں مقامی جماعت کے صدر نے جماعت اسلامی کے ذمہ داروں کو بی آر ایس کی تائید کیلئے راضی کرنے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یونائٹیڈ فورم کے کئی نمائندے سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے اور مقامی جماعت کی سفارش پر جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار کو تلنگانہ وقف بورڈ کا رکن مقرر کیا گیا اور ان کی دوسری میعاد کی رکنیت جاری ہے۔ سرکاری عہدوں کا لالچ آتے ہی مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں کے ذمہ داروں کو حکومتوں کی چاپلوسی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ تلنگانہ تحریک میں جماعت اسلامی کے رول کا انعام حاصل کرنے کیلئے جماعت کے سابق ریاستی امیر دس برس سے قانون ساز کونسل کی رکنیت کے انتظار میں ہیں جس کا بھروسہ مقامی جماعت کے صدر نے دلایا تھا۔ مجوزہ اسمبلی چناؤ میں تائید کے مسئلہ پر جماعت اسلامی دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مقامی جماعت سے قربت رکھنے والے قدیم اور ضعیف قائدین بی آر ایس کی تائید پر اصرار کررہے ہیں تاکہ کونسل کی رکنیت کا خواب پورا ہوسکے۔ دوسری طرف نوجوان قیادت مسلمانوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے بی آر ایس کے بجائے کانگریس کی تائید کے حق میں ہیں۔ سینئرس اور جونیرس کا یہ ٹکراؤ دہلی تک جاسکتا ہے اور دہلی میں بھی مقامی جماعت سے قربت رکھنے والے اور بی آر ایس حکومت میں سرکاری عہدہ پر موجود شخصیت کی موجودگی سے امکان ہے کہ قومی قیادت کو بی آر ایس کے حق میں فیصلہ کیلئے دباؤ بنایا جائے گا۔ سابق امیر حامد محمد خاں کو کونسل کی رکنیت کا لالچ دیا گیا ہے جبکہ وقف بورڈ کے رکن اور جماعت اسلامی کے قومی نائب امیر ملک معتصم خاں بعض ذاتی امور میں کے سی آر حکومت کی مدد کا احسان چکانا چاہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 2014 میں ملک معتصم خاں نے جس وقت نظام آباد لوک سبھا حلقہ سے ویلفیر پارٹی آف انڈیا کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا تھا تو انہوں نے الیکشن کمیشن کو جھوٹا حلفنامہ داخل کیا جس میں خود کو سرکاری ملازم کے بجائے سماجی کارکن ظاہر کیا گیا۔ ملک معتصم خاں سرکاری اسکول میں ٹیچر تھے اور سرکاری ملازمت کے باوجود انہوں نے وقف بورڈ کی رکنیت قبول کی اور یہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ عدالت میں شکست کے اندیشہ کے بعد سرکاری ملازمت سے استعفی دے کر رضاکارانہ سبکدوشی اختیار کرلی گئی۔ اطلاعات کے مطابق وظیفہ کی منظوری کیلئے ملازمت کی درکار مدت نہیں تھی لہذا صدر مجلس کی ایماء پر چیف منسٹر کے سی آر نے خصوصی کیس کے طور پر وظیفہ منظور کرنے کے احکامات جاری کئے۔ جماعت کے سوشیل میڈیا گروپ میں ملک معتصم خاں کے الیکشن کمیشن میں داخل کردہ حلفنامہ کو وائرل کیا گیا ہے۔ اسی طرح حامد محمد خاں کے بحیثیت لکچرر تقرر کیلئے درکار نشانات میں کسی قدر کمی تھی اور کانگریس حکومت کے ذریعہ رعایت حاصل کرتے ہوئے ملازمت حاصل کرنے کی اطلاعات ہیں۔ کانگریس نے ملازمت دی لیکن ایم ایل سی نشست کیلئے بی آر ایس کی تائید کو ترجیح دی جارہی ہے اور اطلاعات کے مطابق کانگریس کی تائید پر استعفی کی دھمکی تک دے دی۔ جماعت اسلامی کی ریاستی شوریٰ میں مقامی جماعت کے صدر سے قربت رکھنے والے چند ارکان کی سرگرمیاں جماعت کے ارکان اور متفقین میں موضوع بحث بن چکی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے نام پر قائم کردہ جماعت جس کا مقصد اقامت دین ہے اگر اس کے ذمہ دارذاتی فائدہ کیلئے حکومتوں سے مفاہمت کریں تو پھر سیاسی پارٹیوں کے مسلم قائدین کو برا بھلا کیوں کہا جائے۔