سری نگر، 10 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) سرکاری ملازمت کو خیراباد کہنے والے کشمیری آئی اے ایس ٹاپر شاہ فیصل کا کہنا ہے کہ وہ بزرگ علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کی قیادت والی حریت کانفرنس میں شامل ہونا چاہتے تھے ۔ تاہم بقول ان کے ‘میں وہاں کیا کروں گا کیونکہ وہ لوگ الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں’۔شاہ فیصل کا کہنا ہے کہ میرے لئے کشمیر کی بڑی علاقائی جماعت میں شامل ہونا اس لئے ضروری ہے کیونکہ میں کشمیریوں کی بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ‘میں ایک ایسی سیاسی جماعت کا حصہ بنوں گا جس میں مجھے بھارتی مسلمانوں، کشمیریوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بات کرنے کی آزادی ملے گی’۔شاہ فیصل نے یہ باتیں بی بی سی اردو سروس کے ساتھ گفتگو میں کہی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے ‘پہلے میں انتظامیہ کے ذریعہ لوگوں کی خدمت کرتا رہا اب سیاست کے ذریعہ بہتر انداز میں کر سکوں گا’۔یہ پوچھنے پر کہ انہوں نے علیحدگی پسند گروپوں کے بجائے اصل دھارے کے سیاسی خیمے کا انتخاب کیوں کیا، شاہ فیصل کہتے ہیں، ‘میں نے طے بھی کیا تھا کہ میں گیلانی صاحب کی قیادت والی حریت کانفرنس میں شامل ہو جائوں گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں وہاں کروں گا کیا؟ الیکشن کا وہ لوگ بائیکاٹ کرتے ہیں حالانکہ کشمیر میں تبدیلیاں الیکشن اور قانون سازی سے لائی جاتی ہیں۔ لہٰذا جتنا ہو سکے گا میں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کرنا چاہتا ہوں’۔شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی وادی لولاب سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ شاہ فیصل کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات پر کھل کر بولنے کے لئے ہی انہوں نے سرکاری ملازمت چھوڑ دی ہے ۔ انہوں نے کہا ہے ‘پچھلے ایک دو سال سے جس طرح کے حالات ہم نے ملک اور جموں وکشمیر میں دیکھے ۔ کشمیر میں ہلاکتوں کا ایک سلسلہ چلا۔ ہم نے اس دوران ہندوستانی مسلمانوں کو حاشئے پر دھکیلنے کی کوششیں دیکھیں۔ ہم نے رونگٹے کھڑے کرنے والی ویڈیوز دیکھیں۔ ہم نے گذشتہ ایک دو سال کے دوران گاؤ رکشکوں کے وہ حملے دیکھے ، جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ ہم نے اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی کوششیں دیکھیں۔ ایسے میں میرا ملازمت میں رہنا اور ضمیر کی آواز پر لبیک نہ کہنا مشکل بن گیا تھا۔ میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ معاملات پر کھل کر بولنے کا وقت آگیا تھا، یہ ملازمت چھوڑ کر ہی ممکن تھا’۔