اُن کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے
دل میں چُبھتے ہوئے خنجر نہیں دیکھے جاتے
ہندوستان میں یہ روایت بن گئی ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو مذہبی تعصب کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ ہر مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مشکل اور بحران کے وقت میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ایک ایسے وقت جبکہ سارا ملک پہلگام حملے پر مغموم ہے اور مہلوکین سے اظہار ہمدردی کر رہا ہے ۔ دہشت گردانہ حملے کے ذمہ دار خاطیوں کے خلاف برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے تو کچھ گوشوں کی جانب سے نفرت کی سیاست کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ عمل ہے اور اس کے خلاف بھی حکومت کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ سارے ملک کے مسلمان بھی اپنے دیگر ابنائے وطن کے ساتھ مشکل کے اس وقت میں ایک دوسرے کا سہارا بن رہے ہیں اور کشمیر کے مسلمانوں نے مہمان نوازی اور وطن پرستی کی اعلی مثال پیش کی ہے تو دوسری جانب بی جے پی کے رکن اسمبلی مسجد کے باہر ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ راجستھان میں ہوا محل حلقہ سے منتخب بی جے پی کے رکن اسمبلی جامع مسجد کے روبرو پہونچ گئے ۔ جس وقت مسجد میں عشاء کی نماز ادا کی جا رہی تھی وہ اپنے حامیوں کے ساتھ جمع ہوئے اور اشتعال انگیز نعرہ بازی کی ۔ نماز کی ادائیگی میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ اپنے نفرت انگیز رویہ سے انہوں نے ملک میں موجود غم کی لہر اور افسوس کے ماحول کو بھی پراگندہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آج عوام اور خود پہلگام دہشت گردانہ حملے کے متاثرین کی جانب سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مستحکم کرنے والے واقعات پیش کئے جا رہے ہیں۔ سوشیل میڈیا کے ذریعہ حقائق کو بیان کیا جا رہا ہے ۔ خود چھتیس گڑھ کے ایک بی جے پی لیڈر نے ایک پوسٹ کرتے ہوئے کشمیر کے نزاکت علی کو خراج پیش کیا ہے ۔ ان کے جذبہ انسانی ہمدردی کی ستائش کی ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ کبھی چکایا نہیں جاسکتا ۔ ایک ایسے وقت جبکہ عادل حسین شاہ کی قربانی کی ستائش ہو رہی ہے کہ کس طرح انہوں نے سیاحوں کو بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کردی ایسے میںنفرت کے ماحول کو ہوا دینے کی کوششیں قابل مذمت ہیں۔
اسی طرح کیرالا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سیاح نے بتایا کہ حالانکہ اس حملے میں ان کے والد اپنی جان گنوا بیٹھے لیکن کشمیر نے انہیں دو بھائی عطا کئے ہیں۔ مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے سیاحوں نے بتایا کہ خدا نے کشمیری نوجوانوں کی شکل میں فرشتے بھیجے تھے جنہوں نے ان کی مدد کی اور زندگیاں بچائی ہیں۔ اس طرح کے ماحول کو پروان چڑھانے کی بجائے نفرت پھیلانے کی کوششیں بھی مزید تیز کردی گئی ہیں۔ اترپردیش کے آگرہ میں ایک مسلم تاجر کو فرقہ پرستوں نے اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا اور اس کے قتل پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے ویڈیو سوشیل میڈیا پر پوسٹ کردی ۔ یہ ایسے عناصر ہیں جو سماج کیلئے ناسور کہے جاسکتے ہیں۔ اترپردیش میں چیف منسٹر آدتیہ ناتھ اور وہاں کی پولیس مجرمین کے خلاف سخت گیر موقف رکھنے کا دعوی کرتی ہے ۔ جرائم پیشہ افراد کو ختم کرنے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے لیکن نفرت پھیلانے والے عناصر کھلے عام پستول اور ہتھیار دکھاتے ہوئے مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اور ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ یہ انتہائی افسوسناک رویہ ہے ۔ فرقہ پرست عناصر ملک کے عوام پر آئے اس مشکل اور افسوسناک وقت کا بھی خیال کرنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ دوسروں کی مصیبت میں اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بیمار ذہنیت کے لوگ ہیں اور ان پر لگام کسنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ تک احساس نہیں ہے کہ ایک مشکل وقت میں نفرت انگیز سیاست سے اتحاد و اتفاق کا ماحول بگڑسکتا ہے اور یہ ہمارے مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ انہیں یہ احساس دلانا ضروری ہے ۔
بی جے پی کی اعلی قیادت اور ذمہ دار قائدین کو بھی چاہئے کہ وہ ملک میں اس طرح کی منفی سیاست کرنے والوں اور نفرت پھیلانے والے عناصر کی حوصلہ افزائی بند کرے بلکہ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ ان عناصر کی سرکوبی کی جائے ۔ ان کی سرزنش کرتے ہوئے نفرت کی سیاست کو روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ آج ملک میں جو حالات ہیں وہ ہمارے اتحاد اور اتفاق کے متقاضی ہیں۔ دہشت گرد طاقتوں کو ایک آواز میں جواب دینے کی ضرورت ہے اور ان کے عزائم اور منصوبوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ کام ساری قوم کے اتحاد و اتفاق کے ذریعہ موثر ڈھنگ سے کیا جاسکتا ہے ۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے ۔ بیمار ذہنیت رکھنے والے عناصر پرلگام کستے ہوئے ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور رواداری کے ماحول کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔
امریکہ ۔ ایران مذاکرات
نیوکلئیر معاہدہ کے سلسلہ میں ایران اور امریکہ کے مابین مذاکرات چل رہے ہیں۔ یہ مذاکرات تیزی سے آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ حالانکہ ایران پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس کی شرائط پر معاہدہ کو قطعیت دے تاہم ایران بھی اپنی جانب سے پوری مزاحمت کر رہا ہے اور وہ مساویانہ رول کے ساتھ نیوکلئیر معاہدہ کو قطعیت دینا چاہتا ہے ۔ امریکہ جس طرح سے دیگر ممالک پر دباؤ ڈال کر اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھاتا رہا ہے اب ایران پر بھی یہی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مساویانہ احترام کے جذبہ کے ساتھ بات چیت کی جائے ۔ مثبت انداز میں بات چیت ہو ۔ طئے شدہ ایجنڈہ کی بجائے مختلف امکانات کا جائزہ لے کر اور منصفانہ معاہدہ کو قطعیت دی جائے ۔ ہر فریق کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا بھی احساس کرتے ہوئے اپنے موقف کو واضح کرنا چاہئے ۔