نمازِ تراویح کی فضیلت و اہمیت

   

رمضان المبارک میں نفل عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں دن میں روزے رکھے جاتے ہیں اور رات میں نماز تراویح ادا کی جاتی ہے۔ ماہ رمضان کی راتوں میں ادا کی جانے والی بیس رکعات نماز باجماعت کا نام ’’تراویح‘‘ اس لئے رکھا گیا کہ جب لوگوں نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا شروع کی تو وہ ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر آرام کرتے تھے، جتنی دیر میں چار رکعات پڑھی جاتی تھیں، یعنی تراویح کے معنی آرام والی نماز ہے۔نماز تراویح بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نماز تراویح کی مداومت فرمائی ہے، چنانچہ حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم کرلو‘‘۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز تراویح ادا فرمائی اور اسے پسند فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ’’جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ اور طلب ثواب کیلئے، اس کے اگلے سب گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘ یعنی صغائر۔ پھر اس اندیشہ سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے، آپﷺ نے ترک فرمائی۔خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رمضان کی) ایک شب مسجد میں تشریف لے گئے اور لوگوں کو متفرق طورپر نماز پڑھتے دیکھا۔ آپؓ نے فرمایا ’’میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں تو بہتر ہے‘‘۔ اس طرح آپ ؓنے ایک امام حضرت ابی بن کعب ؓکے ساتھ لوگوں کو اکٹھا کردیا۔ پھر دوسرے دن تشریف لے گئے تو ملاحظہ فرمایا کہ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس وقت آپ نے فرمایا ’’یہ ایک اچھی بدعت ہے‘‘ (بہار شریعت۔ مصباح الفقہ، اول)
واضح رہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام بنایا تو تمام صحابۂ کرام نے اس پر اتفاق کیا اور کسی نے اعتراض نہیں کیا، اس لئے کہ صحابۂ کرام میں سب سے بہتر قرآن مجید پڑھنے والے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔