نوید رحمت و نجات کی رات

   

حافظ محمد آصف عرفان قادری
اللہ عز و جل کی ذات رحمن و رحیم ہے ، بخشش کرنے والا ، مغفرت فرمانے والا ہے ، اللہ کے انعامات ، احسانات اور سرفرازیوں کے لئے کوئی سال یا مہینہ یا دن مختص نہیں ، وہ جب جس گھڑی جیسے چاہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے ، لیکن اس کے باوجود بعض مہینے یا مخصوص ایام بڑی فضیلت و برکت کے حامل ہیں ۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ پاک نے قرآن کریم کو نازل فرمایا اور رمضان کو دوسرے مہینوں پر فضیلت حاصل ہے ، پھر شعبان المعظم کا مہینہ جو رمضان میں داخلہ کا باب ہے اور یہیں سے نزول قرآن کی تیاریاں اور برکات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ تاریخ اسلامی میں تین راتیں ایسی ہیں جن کی فضیلت و برتری قرآن مجید اور احادیث کریمہ میں بیان کی گوئی ہے ، جن میں ایک شب معراج ، دوسری شب براء ت اور تیسری شب قدر ہے ۔ چنانچہ خالق کبریا ارشاد فرماتا ہے ’’اس کتاب حق کی قسم بے شک اس کتاب کو ہم نے نازل فرمایا ایک بابرکت رات میں ، یہ ہماری شان ہے کہ ہم ہر وقت خبردار کیا کرتے ہیں ۔ اسی رات میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر اہم کام کا ‘‘ ۔ ( سورہ دخان )
نزول کتاب کی حکمت بیان کی جا رہی ہے ، یعنی یہ ہماری شان ہے کہ ہم ہر آنے والے مصائب سے بروقت آگاہ کردیا کارتے ہیں ، تاکہ جو ان سے بچنا چاہے اپنا بچاؤ کرلے ( کشاف ) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس بابرکت رات میں وہ ملائکہ جو عالم تکوین میں مختلف فرائض کی انجام دہی کے لئے متعین ہیں ، سال بھر کے لئے ان کو ان کے متعلقہ فرائض کے بارے میں تفصیل سے بتایا جاتا ہے اور ’’یفرق ‘‘ بمعنی یقضی ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالی آنے والے امور کے متعلق فیصلہ صادر فرماتا ہے ، امر حکیم سے مراد یہ ہے کہ ایسا کام جو سراسر حکمت ہی حکمت ہو ، یہ فیصلہ حتمی ہے اس میں کسی طرح کا تغیر ممکن نہیں ، یعنی یہ فیصلہ میری بارگاہ اقدس سے صادر ہوتے ہیں اور جو فیصلہ ہماری بارگاہ سے صادر ہوگا یقیناً وہ خیر و برکت کا حامل ہوگا ۔ عدل و احسان کا آئینہ دار ہوگا ، اس مبارک رات میں جو فیصلے کئے جاتے ہیں ان کی عظمت و شان کے اظہار کے لئے قرآن مجید میں ’’ امر من عندنا ‘‘ کے الفاظ ذکر کئے گئے ۔ قرآن جیسی کتاب مبین کا نزول اور حضور علیہ السلام کی بعثت رب کریم کی رحمت بے پایاں ہے ، چنانچہ اس لیلۃ المبارکہ کی مزید تشریح اس حدیث مبارکہ میں بھی ہوتی ہے ۔ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات میں نے حضور ﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں حضور ﷺ کی تلاش میں نکلی اور میں نے آپ کو جنت البقیع میں پایا کہ آسمان کی طرف حضور سر اٹھائے ہوئے تھے ۔ مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا ’’ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے جس قدر بال ہوتے ہیں ، اتنے لوگوں کو اللہ نے بخش دیا ہے ۔ حضور علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جبرئیل امین نے حاضر ہوکر عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ! اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائیے ‘‘ ۔ میں نے کہا ’’یہ کونسی رات ہے ‘‘ ۔ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا ’’ یہ ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالی اپنی رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور میں نے دیکھا ہر دروازے پر ایک فرشتہ تھا اور ہر فرشتہ ندا دے رہا تھا کہ مبارک ہو جس نے آج کی رات رکوع کیا ، مبارک ہو جو آج سجدہ ریز ہو گیا ، مبارک ہو جس نے آج کی رات اللہ کا ذکر کیا ، مبارک ہو جس نے آج سوال کیا اسے عطا ہو گیا ، مبارک ہو جس نے آج استغفار کیا توبہ قبول ہو گئی ، طلوع فجر تک اللہ آسمان دنیا سے ندائیں فرماتا رہتا ہے اور ملائکہ تین سو ابواب رحمت پر بیٹھ کر طلوع فجر تک ندائیں دیتے رہتے ہیں ۔ (ابن ماجہ و بیہقی)
شب براءت کے لئے جتنا بھی اہتمام کریں افضل ہے ۔ بعد عصر غسل کریں اور بہتر لباس زیب تن کریں ۔ قریب غروب آفتاب چالیس مرتبہ ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘ پڑھیں تو اللہ تعالی پڑھنے والے کے گناہ معاف فرماتا ہے اور بروز قیامت اس شخص کو پڑھنے کے سبب چالیس آدمیوں کی شفاعت ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ شب براء ت کی بے پناہ برکات کا تقاضہ یہی ہے کہ آج کی رات بندہ اللہ عز و جل سے متوجہ ہوکر اپنی ہر قسم کی حاجت کے لئے دست بہ دعاء ہو جائے ، کیونکہ شب براءت میں اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور خصوصی رحمت و فضل کے ساتھ اپنے بندوں کی جانب توجہ فرماتا ہے اور خاص حاجت روائی کا سب سے موزوں وقت یہی ہوتا ہے کہ دینے والا متوجہ ہو جائے ۔