وباء معیشت سے بالاتر

   

پی چدمبرم
سابق وزیر فینانس

کورونا وائرس کی وباء امکان ہے کہ کچھ اور وقت ہمارے ساتھ رہے گی اور اس سے نگہداشت صحت کی جو بنیادی سہولتیں ہیں، اس میں گڑبڑ ضرور ہوگی۔ عوام وائرس سے متاثر ہوں گے اور زندگیوں کا اتلاف ہوگا اور خاندان برباد ہوں گے۔ کورونا وائرس کے خلاف جو واحد دفاعی اور مزاحمتی ہتھیار ہے وہ ٹیکہ ہے، لیکن بالغ آبادی کو ٹیکے دینے کے معاملے میں ہندوستان نہ صرف G-20 ممالک سے پیچھے ہے بلکہ ہمارے ملک کا مظاہرہ اُن ملکوں سے بہت زیادہ خراب ہے، بہ الفاظ دیگر بدترین ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک صرف 10 کروڑ 81 لاکھ27 ہزار 846 مرد و خواتین کو کورونا ویکسین کے دو ٹیکے دیئے گئے ہیں۔ جبکہ 95 کروڑ تا 100 کروڑ لوگوں کو ٹیکے دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ تسلی اس بات کی ہے کہ معاشی نقصانات کی بھرپائی کی جاسکتی ہے۔ بند کاروبار دوبارہ کھولے جاسکتے ہیں۔ جو لوگ روزگار سے محروم ہیں، وہ دوبارہ روزگار پاسکتے ہیں، جن لوگوں کی آمدنی کم یا محدود ہوگئی ہے، وہ بحال ہوسکتی ہے۔ جو بچتیں ختم ہوچکی تھیں، وہ دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بڑھتے قرض کا بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔ بطورِ قرض حاصل کردہ رقم کی ادائیگی عمل میں لائی جاسکتی ہے اور جو اعتماد متزلزل ہوا ہے، اُسے استحکام بخشا جاسکتا ہے اور جو معیشت پٹریوں سے بھٹک گئی تھی، اسے دوبارہ نمو کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہترین تعلیم کی بنیاد کہاں ڈالی جاتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ بہترین تعلیم کی بنیاد اسکول میں ڈالی جاتی ہے۔ جبکہ خواندگی اور ہندسوں کی پہچان یعنی حساب کتاب بنیاد کے پتھر ہیں۔
اب آتے ہیں ایک اور سوال کی جانب اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں آج اسکولی تعلیم کی کیا حالت ہے؟ خسارۂ تعلیم، بہ الفاظ دیگر سیکھنے کے عمل کا خسارہ ایک تسلیم شدہ حقیقت اور اسکولی تعلیم کی حالت سے متعلق ایک اہم قدم ہے۔ آپ یہ ضرور پوچھئے کہ پانچویں جماعت میں شریک کئے گئے بچوں میں سے کتنے بچے جماعت دوم کیلئے تجویز کردہ متن یا کتب پڑھ سکتے ہیں؟ اسکولی تعلیم کے سالانہ سروے اے ایس ای آر (Annual Survey of School Education) 2018ء کے مطابق ایسے بچوں کا تناسب 50.3% تھا اور جو بچے ساتویں جماعت میں پہنچتے ہیں، ان میں دوسری جماعت کی کتابوں کا متن پڑھنے کے قابل بچوں کا تناسب بڑھ کر صرف 73% ہوا۔ ان حالات میں خسارہ تعلیم اسی طرح متاثر ہوگا جس طرح کسی شئے پر ایک زور دار ہتھوڑا مارا گیا ہو۔ اس موضوع کی گہرائی میں جائیں اور صنفی، شہری ؍ دیہی، مذہبی ، ذات پات، معاشی طبقہ، ماں باپ کی تعلیم اور پیشے اور خانگی ؍ سرکاری اسکولس کے لحاظ سے خسارہ تعلیم کا اندازہ لگائیں تو یہ خسارہ ہمیں خاص طور پر جیسے جیسے سماجی و اقتصادی سیڑھی سے نیچے اُترتے جائیں گے، اس میں اضافہ دیکھا جائے گا۔ ایک بچہ گاؤں کے کم تعلیم یافتہ، کم آمدنی کے حامل والدین کے گھر میں پیدا ہوتا ہے جن کا پیشہ کاشت کاری یا یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور (مزدوری) ہوتا ہے، اور وہ درج فہرست ذات یا درج فہرست قبائل یا پھر دیگر پسماندہ طبقات او بی سی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بچہ سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے۔ اگر شہری علاقوں کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کے داخلے کو دیکھیں تو یہ خانگی اسکولوں میں داخلہ پانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے بہت پیچھے ہوتے ہیں۔ ان خانگی اسکولوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ زیادہ آمدنی کے حامل بچوں کے والدین کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہ لوگ اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کا مشاہدہ ہم سب نے کیا ہے۔
ایک ظالمانہ مذاق
مذکورہ سطور میں ہم نے جو اعداد و شمار اور باتیں پیش کی ہیں، وہ تمام کے تمام کورونا وائرس کی وباء کے ہندوستان میں آمد سے پہلے کے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پہلا لاک ڈاؤن 25 مارچ 2020ء کو نافذ کیا گیا تھا۔ اس دن اسکولس بھی بند کردیئے گئے تھے اور اب 16 ماہ کے بعد بھی اکثر اسکولس بند پڑے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران ہم نے آن لائن تعلیم یا آن لائن لرننگ کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس ضمن میں آپ اور ہم فکر میں مبتلا کرنے والے اعداد و شمار دیکھ سکتے ہیں، وہ یہ کہ دیہی علاقوں میں صرف 6% اور شہری علاقوں کے صرف 25% گھروں میں کمپیوٹرس ہیں جبکہ صرف 17% دیہی علاقوں اور 42% شہری علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ شہری و دیہی علاقوں میں اکثریت ایسے خاندانوں کی ہے، جن کے یہاں اسمارٹ فونس نہیں ہیں۔ ایسے میں 2020-21ء کے ہندوستان میں آن لائن تعلیم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا اس کے بارے میں شیخی بگھارنا ہندوستانی بچوں کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق ہے۔
ہندوستان میں ایک اوسط بچہ اپنی تعلیم کا آغاز خسارہ تعلیم سے کرتا ہے، اگر وہ 16 مہینے یا اس سے زائد عرصہ تک کچھ پڑھتا نہیں یا کچھ سیکھتا نہیں تو تصور کیجئے اس کی ترقی کیسے ہوگی۔ اس معاملے میں حکومتیں چاہے وہ مرکزی یا ریاستی حکومتیں کیوں نہ ہوں، بے یارومددگار نظر آتی ہیں۔ بحیثیت ذمہ داران ہم نے اپنے بچوں کو ناکام کیا اور اس تباہی کا حل نکالنے یا اس کی راہ تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اقدامات نہیں کئے۔ اسکولوں کی جلد سے جلد کشادگی ضروری ہے۔ اس سے پہلے تمام بچوں کو ٹیکے دیئے جانا بھی ضروری ہے کیونکہ ٹیکے کورونا سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، ہتھیار ہے۔ اگر آپ معاشی، تعلیمی، سماجی تقاریب یا تہوار کے بارے میں فکرمند ہیں تب بھی آپ کو سب سے پہلے ٹیکہ اندازی کے بارے میں فکرمند رہنا چاہئے جب تک ہم تمام ہندوستانیوں کو ٹیکے نہیں دیتے، تب تک ہم خطرات میں پھنسے رہیں گے جو ہمیں کہیں کا نہیں رکھیں گا۔ لیکن افسوس! ٹیکہ اندازی مہم نہ صرف شیڈول کے مطابق چلنے سے قاصر ہے بلکہ حکومتی توجہ حاصل کرنے سے بھی محروم ہیں۔ 17 مئی کو ہمارے ملک کے 500 سے زیادہ مشہور و معروف اسکالرس، اساتذہ اور فکرمند شہریوں نے وزیراعظم نریندر مودی کو مکتوب لکھتے ہوئے ٹیکہ اندازی مہم میں پائے جانے والے فرق یا روا رکھے جانے والے عدم مساوات کی جانب توجہ دلائی اور بتایا کہ شہری علاقوں میں 30.3% اور دیہی علاقوں میں 13%، اسی طرح مردوں 54% میں اور خواتین میں 46% کے فرق پائے گئے، دوسری ٹیکہ اندازی کے لحاظ سے غریب ریاستوں اور امیر ریاستوں کے درمیان بھی واضح فرق دیکھا گیا۔ مثلاً غریب ریاستوں میں ٹیکہ اندازی 1.75% بہار میں اور امیر ریاستوں 7.5% دہلی میں فرق دیکھا گیا۔ جہاں تک کورونا وباء کا سوال ہے، ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور کوئی بھی حکومت پریشانی کا شکار ہوسکتی ہے۔ ایسے میں حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت تمام اختیارات اپنے تحت کرلئے اور پچھلے 16 ماہ کے دوران تمام فیصلے بھی کئے۔ ان فیصلوں کو ان کے نتائج کی بنیاد پر جانچا جانا چاہئے اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا حکومت نے کورونا وائرس انفیکشن کے پھیلنے پر قابو پایا ، کیا اس کے اقدامات سے اموات کی تعداد میں کمی آئی، اور کیا حکومت نے ہندوستان کی ساری بالغ آبادی کو ڈسمبر 2021ء کے اواخر تک مکمل طور پر ٹیکے دینے سے متعلق جس ہدف کا اعلان کیا تھا، کیا وہ اس ہدف کی تکمیل کرپائی۔ ساتھ ہی کیا اس نے ہندوستانی بچوں کو ٹیکے دینے کے بارے میں سوچا، اس بارے میں اب آپ ہی منصف اور جیوری ہیں۔