وحی الٰہی علم غیب مصطفوی کا سرچشمہ

   

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اﷲ ﷺ سے یہ قول نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : ’’میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت خاتم النبیین کے طورپر لکھا گیا تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام گارے اور مٹی (مغرض تخلیق میں تھے) اور میں تمہیں اپنے معاملے کی ابتداء کے متعلق بتاؤں ؟ میں ابراھیم علیہ السلام کی دعاء ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور میری پیدائش کے وقت دیکھے گئے میری والدہ کے خواب کی تعبیر ہوں اور اس وقت ان کے سامنے ایسا نور نمودار ہوا تھا جس سے شام کے محلات جگمگا اُٹھے تھے ۔ ( مسند احمد بن حنبل، ۴:۱۲۸۔۱۲۷)
نبی اکرم ﷺ کے غیبی خبروں کا اہم و بنیادی ذریعہ وحی الٰہی تھا ، اس سے آپ ﷺ نے نہ صرف متعدد انبیاء علیھم السلام کے حالات و واقعات کی خبریں لوگوں کو سنائیں بلکہ ان کے لباس ، ان کی وضع ، قطع اور ان کے حلیے تک سے لوگوں کو آگاہ کیا ۔ اس سلسلہ کی چند احادیث درج ذیل ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کا قد ساٹھ ہاتھ بنایا تو فرمایا : جاؤ فرشتوں کی اس جماعت کو جاکر سلام کرو اور سنو وہ آپ کو کیا جواب دیتے ہیں، چنانچہ وہ ان کے پاس گئے اور کہا: السلام علیکم ، انھوں نے وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ۔
( البخاری۶؍۳۵۲، کتاب احادیث الانبیاء ، باب ۱)
حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’گزشتہ رات میرے پاس دو آنے والے ( فرشتے) آئے پھر مجھے ایک طویل القامت شخص کے پاس لے گئے ، جن کا سر ، درازقامتی کی وجہ سے نظر نہ آتا تھا وہ ابراھیم علیہ السلام تھے ( البخاری ۶؍۳۸۷، کتاب احادیث الانبیاء ، باب ۸، حدیث ۳۳۵۴)
حضرت ابوھریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : جس رات مجھے معراج کے لئے لے جایا گیا میں اس رات موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ مضبوط جسم اور پراگندہ بالوں والے شخص ہیں گویا وہ بنوشنودہ ( ایک عرب قبیلہ ) کے ایک فرد ہوں اور میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ کھلے بالوں والے ، میانہ قد اور سرخ رنگت والے شخص ہیں جیسے گویا وہ دیماس سے نکلے ہوں ۔ (البخاری ۶؍۴۲۸)
علاوہ ازیں نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف مختلف انبیاء علیھم السلام کے ناموں سے اُمت کو آگاہ کیا بلکہ ان کی زندگی سے تعلق رکھنے والے مختلف حالات و واقعات کی بھی وضاحت فرمائی ۔ نہ صرف آپ ﷺ نے قبل ولادت سابقہ ادوار کی خبریں بیان فرمائی ہیں بلکہ بعد وفات قیامت تک رونما ہونے والے اور پیش آنے والے واقعات و اخبار سے متعلق تفصیل سے بیان فرمایا ۔ چنانچہ حضرت عمر بن یحییٰ بن سعید اپنے دادا حضرت سعید بن عمرو بن سعید سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : میں حضرت ابوھریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کہ حضرت ابوھریرہؓ نے فرمایا : میں نے سچے اور سچے سمجھے جانے والے ( نبی اکرم ) ﷺ سے یہ سنا ہے کہ میری اُمت کی تباہی قریش کے نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں سے ہوگی، مروان بولا : ان لڑکوں پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ، حضرت ابوھریرۃؓ نے فرمایا : اگر میں بتانا چاہوں کہ وہ ( قریش کی ) کس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کس کے بیٹے ہونگے تو میں ایسا کرسکتا ہوں‘‘ ۔ اس کے بعد بنومروان شام پر قابض ہوگئے ۔ پھر میں اپنے دادا کے ہمراہ جایا کرتا تھا ، جب ہم مسند اقتدار پر نوجوان لڑکے دیکھتے تو میرے دادا کہتے : ’’ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ بھی انہی میں سے ہوں ، میں کہتا کہ آپ ہی بہتر جانتے ہیں‘‘۔ (البخاری، ۱۳؍۹، کتاب الفتن)
نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانے میں انسانی جان کی عزت و حرمت کا یہ عالم تھا کہ عام حالات میں قتل و خون ریزی کا شاذ و نادر ہی کوئی واقعہ پیش آتا لوگ ایک دوسرے کی جان و مال کا احترام کرتے تھے لیکن بہت جلد وہ دور بھی آیا جب مسلمانوں کے مابین پھوٹ پڑی اور قتل و خوں ریزی کا ایسا بازار گرم ہوا کہ تمام مسلم علاقے اس کی لپیٹ میں آگئے۔ نبی اکرم ﷺ اس کی پیشن گوئی فرماچکے تھے ۔ حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’زمانہ قریب آگیا ہے کہ عمل گھٹ جائیگا ، لالچ بڑھ جائیگا ، فتنے ظاہر ہونگے اور ’’ہرج‘‘ کی کثرت ہوجائیگی ۔ صحابہؓ نے پوچھا : ’یا رسول اﷲ ﷺ ہرج کیا ہے ؟ فرمایا قتل ، قتل …‘‘۔(البخاری۱۳؍۱۳، کتاب الفتن)
ایک اور حدیث میں یہ بات اور کھل کر بیان کی گئی ۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ انھوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’دیکھو میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ ‘‘۔ ( البخاری ۱۳؍۲۶، کتاب الفتن)
ایک موقعہ پر آپ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکلے اور مدینہ منورہ کی طرف ایک گڑھی کے اوپر سے دیکھا اور فرمایا : ’’میں دیکھ رہا ہوں تمہارے گھروں پر فتنے بارش کی طرح برس رہے ہیں ‘‘۔ (البخاری۱۶)
حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی نسبت اطلاع دی کہ وہ فتنوں اور آزمائشوں میں فریق حق ہوں گے اور یہ بھی فرمایا کہ فتنوں کا زیادہ تر ظہور مشرقی جانب سے ہوگا جدھر سے سورج نمودار ہوتا ہے ۔ (البخاری) چنانچہ حضرت عمرؓ کا قاتل بھی اُدھر سے تعلق رکھتا تھا ۔ حضرت عثمان کے قاتلوں کا مسکن بھی یہی علاقہ رہا ۔ جنگ جمل اور جنگ صفین کی معرکہ آرائیاں انہی میدانوں میں مشرقی علاقوں کے لوگوں کی شرانگیزیوں کے باعث ہوئیں ۔ خوارج سے لے کر معتزلہ ، جہریہ ، اور قدیریہ تک سبھی فتنہ انگیز گروہ اسی علاقے میں پیدا ہوئے ۔ الغرض صدیوں سے یہ مشرقی علاقے فتنوں اور شورشوں کا منبع اور مرکز رہے ہیں۔