شاید خزاں ہی آئی ہے بن کر بہارِ نو
سہمے سے برگ و گُل ہیں سبھی گلستان میں
وزیر اعظم کو سلیبریٹیز کا مکتوب
ہندوستان بھر میںایک طرح کی بے چینی والی جو کیفیت پیدا کی جا رہی ہے اس پر سارے ملک کے عوام میں فکر و تشویش پائی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود حکومت اورا س کے ذمہ داروں کی جانب سے ماحول کو پرسکون بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ اس کے برخلاف کچھ گوشوں سے حالات کو مزید پراگندہ کرنے کیلئے بیان بازیاں کی جا رہی ہیں۔ اشتعال انگیز بیانات کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ماحول کو کشیدہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال سے ملک کے عوام کی تشویش اور فکر میںمزید اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس صورتحال کو ہمارے ملک کے سلیبریٹیز اورا ہم شخصیتوں نے محسوس کیا ہے اور اس ملک کے تعلق سے اپنی فکرمندی کا اظہار انہوں نے وزیر اعظم نریندرمودی کے نام ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے کیا ہے ۔ ان شہریوں نے ملک اور ملک کے ماحول کے تئیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا تھا اور انہوں نے اس سے وزیر اعظم کو بھی واقف کروادیا ہے جو سربراہ حکومت ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سارے ہندوستان میں مٹھی بھر شرپسند عناصر کی جانب سے ماحول کو پراگندہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ کوئی موقع ہو اس کا استحصال کرتے ہوئے فائدہ حاصل کرنے کے مقصد ماحول بگاڑا جا رہا ہے ۔ ایسے ایسے بیانات دئے جا رہے ہیں جو ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں دئے گئے ۔ کہیں سرکاری عہدیداروں کو مارپیٹ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ کہیں ان کی ہتک اور بے عزتی کی جا رہی ہے ۔ کہیں اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے ہاتھ کاٹنے ‘ سر قلم کرنے اور زبان کھینچنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ نہتے اور معصوم افراد کو جو غم روزگار سے نمٹنے جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں انہیں ایک مخصوص مذہبی نعرہ لگانے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ ان کو مارپیٹ کی جا رہی ہے ۔ زد و کوب کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک شیرخوار بچہ جو خود اپنا نام بھی نہیں بول سکتا اور نہ یاد رکھ سکتا ہے اس کو مارپیٹ کا نشانہ بناتے ہوئے ایک مخصوص نعرہ لگانے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک طرح کی بیمار ذہنیت کی عکاسی ہے اور اس کے ذریعہ سارے معاشرہ کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔
سماج کا سکون اور امن درہم برہم ہو رہا ہے ۔ آئندہ دنوں کے تعلق سے یہ خدشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ گھروں سے باہر نکلنا اور بحفاظت واپس آنا دشوار ہوجائیگا ۔ اس صورتحال میں ہمارے ملک کے معتبر اور اہم شخصیتوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے نام مکتوب روانہ کیا ہے ۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مکتوب تحریر کرنے والے غیر مسلم بھائی ہیں۔ یہاں مذہب کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مذہب کی آڑ لے کر ملک کے ماحول کو خراب کرنے کا مسئلہ ہے اور اس پر حکومت کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماج کا امن اور سکون درہم برہم کرنے والے چاہے کسی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں انہیں اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ ان عناصر پر لگام کستے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہونچانا چاہئے ۔ ایسا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ کچھ عناصر کی وجہ سے سارے ملک کی بدنامی اور رسوائی کا موقع نہیں دیا جاسکتا ۔ ملک کی اہم شخصیتوں نے اب جب خود اپنے طور پر اس صورتحال کو سمجھ کر حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم کی توجہ مبذول کروائی ہے تو حکومت کی ذمہ داری میںمزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔ حکومت کو فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے ان عناصر کی سرکوبی کیلئے حرکت میں آنے کی ضرورت ہے جو ملک کے چین و سکون کو درہم برہم کرنے کے در پہ ہیں۔
ہندوستان ایک گلدستہ ہے جس میں تمام ذات پات اور عقائد و مذہب کے ماننے والے ‘ مختلف زبانیں بولنے والے رہتے بستے ہیں۔ ہمارا ملک پرامن بقائے باہم کی دنیا میں سب سے بہترین مثال ہے اورا س مثال کو متاثر ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ جو ہذیان کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے اور جس مذہبی جنون کو بھڑکا کر اس کا استحصال کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں وہ انتہائی مذموم اور افسوسناک ہیں۔ ان کوششوں کو ناکام بنانا ہر ذمہ دار ہندوستانی شہری کی ذمہ داری ہے ۔ ہمارے ملک کی سلیبریٹیز نے تو یہ ذمہ داری ادا کی ہے اور ہر شہری کو اپنے اپنے طور پر اپنی استطاعت کے مطابق ملک کو کمزور کرنے والی اور سماج کاامن و سکون درہم برہم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے آگے آنا ہوگا ۔