ٹرمپ کے تیور اورہندوستان کی تجارت

   

ایک ہستی کا ہے مٹنا ایک ہستی کی نمو
بات یہ ہم پر کُھلی ہے اپنے آتشدان سے
ڈونالڈ ٹرمپ جس وقت سے دوسری معیاد کیلئے صدارتی ذمہ داری سنبھالے ہیںاس وقت سے ہی انہوں نے ہندوستان کے تعلق سے منفی ریمارکس کرنے شروع کردئے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی اشیا کی امریکہ منتقلی پر جن شرحوں کا اعلان کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ان کے نتیجہ میں ہندوستان کی تجارت پر اثرات مرتب ہونے کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں کوئی بھی امریکی شئے فروخت نہیں کی جاسکتی جب تک زیادہ سے زیادہ محاصل نہ ادا کردئے جائیں۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ میں بھی ہندوستانی اشیاء اکی فروخت پر اسی اعتبار سے شرحیں ( محصول ) عائد کئے جائیں گے ۔ ٹرمپ اب مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی تو ہے جو ہندوستان کو بے نقاب کر رہا ہے ۔ اس طرح انہوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان امریکی اشیاء پر تو بھاری محاصل عائد کر رہا ہے جبکہ امریکہ میںفروخت ہونے والی ہندوستانی اشیاء پر اتنے محاصل نہیں ہیں ۔ اب یہ محاصل برابری کی اساس پر عائد کئے جائیں گے ۔ یہ اعلان یا فیصلہ ہندوستانی تجارت کیلئے منفی اثرات مرتب کرنے کا موجب بن سکتا ہے کیونکہ ہندوستانی اشیاء پر امریکہ میں بھاری شرحیں عائد کی جانے لگیں تو ان اشیاء کی برآمدات پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ان میں کمی آسکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہندوستانی معیشت کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ہندوستان میںامریکی اشیاء کیلئے محاصل یا شرحوں میں کمی کی جائے گی تو آمدنی پر اس کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور یہ ہماری معیشت کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ کسی بھی ملک کی معیشت کے استحکام اور اس کی معاشی سرگرمیوں میں تجارت کا اہم رول ہوتا ہے اور تجارت کو توسیع دیتے ہوئے مختلف ممالک سے تعاون و اشتراک کیا جاتا ہے ۔ ایسے پالیسی فیصلے کئے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کیلئے معاون ہوں ۔ ایک دوسرے کیلئے سہوت کا باعث ہوں اور ایک دوسرے کی تجارتی ضروریات کی تکمیل کرتے ہوں۔ یہی بین الاقومی سطح پر مروجہ طریقہ کار ہے ۔ کسی ایک فریق کیلئے سہولت یا کسی ایک فریق کیلئے دباؤ کے فیصلے تجارتی امور میں بہتری کی وجہ نہیں ہوسکتے ۔ تجارتی امور میں بھی برابری اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ میں عوام کو ملک کے بہتر اور سنہرے مستقبل کا وعدہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے ۔ وہ امریکہ کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور اسی کیلئے مختلف فیصلے کئے جارہے ہیں۔ تاہم یہ فیصلے امریکہ کیلئے فائدہ مند ہوں یا نہ ہوں لیکن دوسرے ممالک کیلئے مسائل اور پریشانیوں کا باعث ضرور بن رہے ہیں۔ جس طرح سے من مانی انداز میں ٹرمپ کی جانب سے فیصلے کئے جا رہے ہیں وہ عالمی تجارتی اصولوں کے مطابق نہیں کہے جاسکتے ۔ ٹرمپ نے ہندوستان کے معاملے میں جو جارحانہ تیور اورسخت موقف اختیار کیا ہے وہ دوست ممالک کے ساتھ روا رکھاجانے والا رویہ نہیں کہا جاسکتا ۔ اس معاملے میں ٹرمپ یا ان کے انتظامیہ کو لچکدار اورنرم رویہ اختیار کرنے کی ضرورت تھی ۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ جس طرح امریکہ میں ہندوستان کی تجارت ہمارے لئے نفع بخش ہے اسی طرح امریکہ کیلئے بھی ہندوستان میں تجارت نفع بخش ہی ہے ۔ دونوں ممالک کو سفارتی سطح پر مذاکرات اور بات چیت کے ذریعہ شرحوں اور محاصل کے مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت تھی تاہم ایسا نہیں کیا گیا ۔ صدر امریکہ کے جارحانہ تیور کے نتیجہ میں درآمدات و برآمدات کی سرگرمیاں متاثر ہوسکتی ہیں اور بحیثیت مجموعی ہندوستانی تجارت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ کو اس طرح کی پالیسی سے گریز کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ مستحکم تعلقات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت تھی جو انہوں نے نہیں رکھی ۔ یہ ہندوستان کیلئے ایک اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔
ہندوستان آج دنیا کی ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے ۔ ایک عالمی طاقت کے طور پر ہندوستان ابھر رہا ہے اور اسے تجارتی امور میں نشانہ بنانے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ امریکہ کو یقینی طور پر اپنے مفادات کے تحفظ کا حق حاصل ہے اور اسے ایسا کرنا بھی چاہئے لیکن ایسا کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے تجارتی مفادات کو متاثر کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی دی جانی چاہئے ۔ امریکہ جس طرح سے سخت موقف اختیار کئے ہوئے ہیں اسی طرح ہندوستان کو بھی اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے سخت گیر فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ تجارتی امور میں امریکہ اپنی شرائط ہم پر مسلط نہ کرنے پائے ۔ مذاکرات کے ذریعہ دونوں ممالک کیلئے کوئی قابل قبول حل دریافت ہوسکتا ہے تو یہ دونوں ہی کے مفاد میں بہتر ہوگا اور دونوںہی ممالک میں معاشی سرگرمیوں کو بحال رکھاجاسکے گا ۔
سیاحوں کی عصمت ریزی
کرناٹک میں ایک اسرائیلی خاتون سیاح کی عصمت ریزی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں دو افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ یہ ہندوستان کے نام پر کلنک جیسے واقعات ہیں جو اکثر و بیشتر پیش آنے لگے ہیں۔ بیرونی سیاح ہندوستان کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر یہاںآتے ہیں اورجب وہ یہاںسے جائیں تو ان کے ساتھ خوشگوار یادیں ہونی چاہئیں۔ اچھے تجربات ہونے چاہئیں اور بہتر مہمان نوازی ہونی چاہئے تاہم وقفہ وقفہ سے بیرونی سیاحوں کو ہراسانی یا ان کی عصمت ریزی کے جو واقعات پیش آ رہے ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں اور ان کا ازالہ کرنے کیلئے سخت گیر اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ویسے تو عصمت ریزی کے کسی بھی واقعہ پر سخت کارروائی ہونی چاہئے تاہم خاص طور پر بیرونی سیاحوں کے معاملات میں مزید سختی کی جانی چاہئے کیونکہ یہ عالمی سطح پر ہندوستان کی شناخت کا مسئلہ ہوتا ہے اور عالمی سطح پر ملک کی شناختک و مسخ یا متاثر ہونے کی اجازت ہرگز نہیں دی جانی چاہئے ۔