راج دیپ سردیسائی
ملک میں 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی انتخابی مہم کے لئے ایک خصوصی حکمت عملی تیار کی گئی تھی اور اس حکمت عملی کے مطابق ہی راست سوال پیدا کیا گیا کہ مودی بمقابلہ کون؟
اب کورونا وائرس کی بیماری (کووڈ۔ 19) نے قومی قیادت کے تصور بانظریہ کی ازسر نو تشریح کی ہے۔ وہ چیف منسٹرس یا وزرائے اعلیٰ ہی ہیں جو کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے ہر اول دستہ میں شامل ہیں یا محاذ جنگ میں سب سے آگے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو کورونا وائرس کا بحران ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ حقیقی اقتدار (طاقت) اور ذمہ داری صرف دہلی میں ہی نہیں ہے بلکہ ریاستی دارالحکومتوں میں ہے۔ مودی پر مرکوز سیاسی دنیا بالآخر یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ ملک میں علاقائی قائدین کی ایک متنوع زنجیر موجود ہے۔
مثال کے طور پر چیف منسٹر مہاراشرٹر ادھو ٹھاکرے کو لیا جاسکتا ہے۔ ان میں اپنے آنجہانی والد بال ٹھاکر جیسی کرشماتی شخصیت اور انتظامی صلاحیتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ انہوں نے جب نومبر میں بحیثیت چیف منسٹر اپنے عہدہ کا حلف لیا اس وقت انہیں عام طور پر اتفاقاً چیف منسٹر بننے والی شخصیت کے طور پر دیکھا گیا۔چھ ماہ سے بھی کم عرصہ میں ادھو ٹھاکرے کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں مہاراشٹرا کا چہرہ بن گئے۔ ان کا ٹیلی ویژن پر یومیہ خطاب کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں عوام کا حوصلہ بڑھ رہا ہے۔ سنگین اور خوف دہشت کے ماحول میں وہ عوام کے درمیان اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب رہے۔
ادھو ٹھاکر نے وائرس کے پھیلاو کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کسی بھی کوشش کے خلاف سخت بیانات جاری کئے۔ ان کی قیادت میں شیوسینا نے جو فاصلہ طئے کیا ہے سیاسی سفر کیا ہے ان بیانات سے اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ اگر مہاراشٹرا میں کورونا کے مثبت کیسیس زیادہ ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ممبئی سفر کرنے والوں کے لئے سماجی رابطہ کا ایک مرکز ہے۔کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں مرکز ریاستوں سے پیچھے ہوگئی ہے۔ اس سلسلہ میں چیف منسٹر کیرالا پنارائی وجین اچھی مثال ہیں۔ حالیہ عرصہ تک بھی ان کا مقامی مضبوط و بااثر سیاستداں کا امیج تھا، ایسا سیاستداں جس کا عوام سے محدود رابطہ ہے لیکن کورونا وائرس بحران میں وہ ایک ایسے طاقتور سیاستداں کے طورپر ابھر آئے جس میں اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے۔ پینارائی وجین اب ایک ایسے سیاستداں کے طور پر ابھرے ہیں جن کی انتظامیہ پر مضبوط گرفت ہے۔چاہے وہ غریبوں کے لئے معاشی پیکیج کا معاملہ ہو یا ہاٹ اسپاٹ قرار دیئے گئے اضلاع میں ایمرجنسی ٹسٹنگ سہولتوں کا قیام یہاں تک کہ قابل کنٹرول لاک ڈاون کا نفاذ، صحت عامہ کے شعبہ میں سرمایہ کاری اور توجہ مرکوز کرنے کی روایت رکھنے والا کیرالا کورونا کے خلاف لڑائی میں قومی ایجنڈہ سے ایک قدم آگے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی اختلافات کے باوجود مختلف ریاستیں کورونا چیلنج سے پوری طاقت سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ مثال کے طور پر پنجاب میں چیف منسٹر کیپٹن امریندر سنگھ نے اس امر کو یقینی بنایا کہ ریاست میں نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی ایک بڑی آبادی کو مالی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ فصل کے سیزن کے پیش نظر پنجاب میں ہی مقیم رہیں۔
اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ ان چیف منسٹرس میں شامل ہیں جنہوں نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو طمانیت آمدنی کا تیقن دیا۔ اڈیشہ میں نوین پٹنائک نے تمام طبی آلات سے لیس تین عصری کووڈ۔ 19 اسپتال قائم کئے۔
چھتیس گڑھ میں بھوپیش بھاگیل نے تمام کے لئے زائد راشن کی فراہمی کو یقینی بنایا جبکہ راجستھان میں اشوک گیہلوٹ کی حکومت نے بھلواڑہ میں کورونا وائرس وباء پر قابو پانے بڑی تیزی سے اقدامات کئے۔دہلی میں اروند کجریوال کی حکومت نے بڑے پیمانے پر اینڈم ٹسٹنگ کا آغاز کیا۔ آسام کی سربانندا سولووال حکومت نے بڑی تیزی سے اپنی طبی تیاریاں مکمل کی جبکہ مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی ’’سفل بنگلہ‘‘ اسکیم نے سبزیوں کی قیمت کو پوری طرح قابو میں رکھا۔
کورونا وائرس سے متاثر اس دور میں مرکز، ریاست تعلقات کی بازیافت کی ضرورت کو مرکز نے مانا ہے۔ اس کی وجہ چیف منسٹرس کی حالات پر خصوصی توجہ رہی۔ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں ریاستوں کے غیر معمولی اور ہر وقت اقدامات نے مرکز کو چیف منسٹرس پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے اور ریاست۔ مرکز تعلقات کی اہمیت کو سمجھنے پر مجبور کیا۔ دہلی اچھی طرح جانتی ہے کہ بہترین ذہنیت سیاسی آرڈر اور فیصلہ سازی کے مرکوزیت پر مبنی نظام کی تحقیق میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔
مودی نے اپنے اقتدار میں کئی بڑے اہم فیصلہ کئے جیسے نوٹ بندی وغیرہ اور انہوں نے یہ فیصلہ کم سے کم مشاورت اور زیادہ سے زیادہ خلل اندازی اور ایک ایسے کمانڈ اینڈ کنٹرول طریقہ اپناتے ہوئے کئے جو اتفاق رائے کی تعمیر کی اجازت نہیں دیتا۔ایک جنگ جیسی صورتحال جیسے کہ موجودہ صورتحال ہے وہ بنیادی تبدیلی کی متقاضی ہے۔ حالات ایسے ہیں جس میں حقیقی قائدانہ جذبہ کے تحت دیگر شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہنا ضروری ہے۔ جہاں ساری توجہ ایک شخصیت کے اطراف مرکوز رہنے کی بجائے اجتماعی کاوش کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔
آج ہر ریاست کو مرکز سے اضافی فنڈس کی شدید ضرورت ہے۔ وہ مالیاتی حدود میں راحت چاہتی ہیں یہاں تک کہ گڈس اینڈ سرویس ٹیکس (GST) ماڈل بھی مرکز۔ ریاست تعلقات میں ازسر نو بہتری لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ کئی ریاستیں جی ایس ٹی سے پریشان ہیں اور ان کی شکایت ہے کہ انہیں ابھی تک مکمل طور پر جی ایس ٹی معاوضہ حاصل نہ ہوا۔ہمارے ملک میں قومی سطح ایک موثر پروٹوکول کی ضرورت ہے۔ جہاں مرکزی وزارت صحت اور اعلیٰ ادارے جیسے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ ورک اہم ترین مسائل بشمول خانگی لیابس کو ٹسٹنگ کی اجازت دینے اور ہیلتھ ورکرس کے لے پرسنل پروٹیکٹیو اکویپمنٹ (پی پی ای) کی تیزی کے ساتھ بنا رکاوٹ ڈیلیوری کو یقینی بنانے کے لئے قریبی طور پر کام کریں۔یہی وقت ہے کہ مودی کو تمام سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر کورونا وائرس کے خلاف ملک کی قیادت کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے مودی اکثر یہ شکایت کرتے رہے کہ ہر معاملہ میں مرکزی کی اجارہ داری ہے اور ریاست کی خود مختاری پر سمجھوتہ نہ کیا جارہا ہے۔
آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت 20 مارچ کو چیف منسٹرس کے ساتھ اپنا پہلا اجلاس منعقد کیا جب ملک میں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد 200 کو پار کرچکی تھی۔ 5 دن بعد مودی نے صرف چار گھنٹوں کی نوٹس پر قومی سطح پر لاک ڈاون کا اعلان کردیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مبینہ طور پر چیف منسٹرس سے کوئی مشورہ کرنا یا ان کی رائے لینا ضروری نہیں سمجھا۔ انہیں پیشگی اطلاع بھی نہیں دی۔ جب ملک میں مودی نے 9 منٹ کی بتی بجھاؤ مہم کا اعلان کیا اس وقت بھی ریاستی چیف منسٹروں اور وزرائے توانائی کو اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔جب مرکز نے غریبوں کے لئے مالی پیاکیج کا اعلان کیا دوبارہ ریاستی وزرائے فینانس کو اس میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ چند دن پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے کورونا وائرس مسئلہ پر اپوزیشن قائدین کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا تھا۔ یہ ایسا قدم تھا جو کئی ہفتے قبل ہی اٹھانا چاہئے جب پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا۔جب مودی پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تب مودی نے خود کو ٹیم انڈیا کا کپتان کہا تھا ساتھ ہی وعدہ کیا تھا کہ حد سے زیادہ مرکزی ازم کو تعاون و اشتراک پر مبنی وفاقیت سے تبدیل کریں گے۔