مذکورہ وینکٹ چالیا کمیشن نے نقصان کو ختم نہیں کیاتھا جیسا کہ چیرمن کی طرف سے ہدایت دی گئی تھی
بی جے پی کی زیرقیادت حکومتوں اور ائین میں اہم تبدیلیاں لانے کا ائیڈیا ایک ساتھ نظر آرہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی بات کو آگے بڑھا یا ہے
‘ یہ وہ ائیڈیاہے جس کو حکومت کے تقرر کردہ پیانل کے اپنے مطالعہ کے بعد پیش کیا ہے او راس کا اعلان چہارشنبہ کے روز کیاگیا‘ حالانکہ پیانل کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے تھاکہ 200فبروری میں اٹل بہاری واجپائی حکومت نے دستور کے کام کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کے لئے قائم کیاہے۔
مذکورہ وینکٹ چالیا کمیشن نے نقصان کو ختم نہیں کیاتھا جیسا کہ چیرمن کی طرف سے ہدایت دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ اس میں خود ساختہ ”استحکام“ گروپ میں گیارہ اراکین کمیشن کے زیادہ تر سیاسی قائدین ہیں جس کے پانچ سال کی معیاد مقرر ہے اور ان کام سونیاگاندھی کو اعلی دستوری عہدہ سے روکنا ہے۔
یہ معاملہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ کیونکہ واجپائی حکومت نے دستور کاجائزہ لینے کے لئے بے چین ہے اس کی وضاحت نہیں ہوئی تھی۔
مگر اس وقت کے آر ایس ایس کے جوائنٹ جنرل سکریٹری کے ایس سدرشن نے آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر میں اپنے نظریات کی عکاسی کے ذریعہ تھیلے میں بند بلی کوباہر نکلنے کا موقع دیا۔
انہوں نے کہاتھا کہ یہ اس کی جانچ ضروری ہے کہ آیا ویسٹ منسٹر ماڈل ہندوستان کے لئے فائدہ مند ہے‘ اور کیادوسرا نظام قابل قبول ہے۔اس نے تشویش پیدا کردی۔
مذکورہ آر ایس ایس لیڈر کا یہ خیال تھا کہ بی جے پی کی ترجیحات میں صدراتی نظام کی حکومت تھی‘ جو سب سے بڑی طاقت فراہم کرسکتی ہے۔
صدر کے آر نارائنہ نے اس میں مداخلت کرتے ہوئے بڑی چالاکی کے ساتھ اس کا اشارہ دیاکہ حکومت کا بنیادی ڈھانچہ مذکورہ دستور اورپارلیمانی حکومت (ویسٹ منسٹر ماڈل) نظام ہے جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی ہے او رنہ ہی اس کی خلاف ورزی کی جاسکتی ہے
۔اس سے مسٹر نارائنہ کو حکومت تک پہنچانے میں مدد نہیں ملی‘ مگر ان کی کوششیں بنیادی تبدیلیوں کرنے پر ایک کار ضرب ثابت ہوئیں۔
مذکورہ حکومت نے پھر ایک مرتبہ قانون سازوں کی معیاد کو منجمد کرنے کے متعلق ایک جائزہ کی بات کہی ہے جو ان کے ”ایک ملک‘ ایک الیکشن“ کے نعرے کی بنیاد پر ہے۔ یہ پارلیمانی شکل کی حکومت کا ایک او رنام ہے۔