پارلیمنٹ میں آج بجٹ پیش ہوگا ۔

,

   

کسی بھی ملک کو وہاں کا متوسط طبقہ چلاتا ہے۔ اس طبقہ میں نوکری پیشہ اور چھوٹے کاروباری ہوتے ہیں جو دن بھر جی توڑ محنت کرتے ہیں اور ہر سال ایمانداری سے ٹیکس بھرتے ہیں۔ اس ٹیکس کے دَم پر ہی حکومت ترقیاتی منصوبے چلاتی ہے۔ لیکن ہر بجٹ میں یہ طبقہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا ہے اور یہی سوچتا رہتا ہے کہ کبھی کوئی حکومت اس کے من کی بات بھی سنے گی اور امیدوں کو پورا کرے گی۔

ملک کے متوسط طبقہ کا طویل مدت سے مطالبہ رہا ہے کہ آمدنی پر ٹیکس میں چھوٹ بڑھنی چاہیے۔ اس بار بھی انتخابی سال ہونے کی وجہ سے اس طبقہ کی امیدیں آسمان پر ہیں۔ چونکہ پی ایم مودی بھی اس بات کو ظاہر کر چکے ہیں تو اس بار متوسطہ طبقہ کی امیدیں اپنے عروج پر رہنا لازمی ہے۔ ایسے ماحول میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تقریباً 5 سال تک اپنے من کی بات کرنے والی مودی حکومت کیا اس عبوری بجٹ میں عام لوگوں کے من کی بات سنے گی اور ان کی خواہشات کو پورا کرے گی؟

ٹیکس میں چھوٹ کا مطلب کیا ہے، اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں ہر سال تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ لوگ ہی انکم ٹیکس ریٹرن بھرتے ہیں۔ ان میں سے بھی 93.3 فیصد لوگ اپنی کمائی ڈھائی لاکھ سے کم ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی صرف 6.6 فیصد لوگ ہی ڈھائی لاکھ سے زیادہ کمائی دکھاتے ہیں۔ اس حساب سے ملک کے صرف 13 لاکھ 86 ہزار لوگ ہی ٹیکس کی شکل میں حکومت کو ادائیگی کرتے ہیں۔

حال ہی میں آئی ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں بے روزگاری شرح 45 سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں صاف ہے کہ ملک میں بے روزگاروں کی بہت بڑی فوج ملازمت کی امید لگائے ہوئے ہے۔ وہیں 2016 میں نافذ ہوئی نوٹ بندی کے بعد بے روزگاری شرح 6.1 فیصد ہو گئی ہے۔ ایسے میں ان نوجوانوں کو بھی اس عبوری بجٹ سے بہت امید ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ حکومت کچھ ایسا قدم اٹھائے گی کہ ان کی حالت بدل جائے گی۔

حال ہی میں آئی ایک تازہ رپورٹ ملک میں ڈگری اور نوجوانوں کے روابط کو قائم کرتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 30 لاکھ نئے گریجویٹ بے روزگاروں کی فوج میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہر سال 8 لاکھ نئے انجینئر کالج سے نکل کر بازار میں آ رہے ہیں۔ وہیں، ہر سال 5 لاکھ سے زیادہ ایم بی اے بھی اس بھیڑ میں شامل ہوتے جا رہے ہیں جب کہ ملازمت ان میں سے نصف لوگوں کو بھی نہیں ملتی ہے۔

ایسے میں بجٹ سے نوجوانوں کو کافی امیدیں ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سب کے لیے اعلیٰ تعلیم کے یکساں اور سستے مواقع دستیاب ہوں۔ گریجویشن پوری ہونے کے بعد سال بھر کے اندر ملازمت ملے اور ملازمت نہیں ملنے تک انھیں بے روزگاری بھتہ دیا جائے۔ سب کو اس کی اہلیت کے مطابق روزگار ملے اور غریب طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے لیے حکومت بلاسود قرض دستیاب کرائے۔

انتخابی سال ہونے کی وجہ سے ملک کے لوگوں کو مودی حکومت کے آخری بجٹ سے کافی امیدیں ہیں۔ متوسط طبقہ، ملازمت پیشہ، چھوٹے کاروباری، بے روزگار نوجوان ہی نہیں، اس بجٹ سے ملک کے کسانوں کو بھی کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ ملک کا کسان لگاتار بدحالی اور قرض میں زندگی گزار رہا ہے اور دو وقت کی روٹی کی کمی میں خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ ایسے میں اس کی بھی امیدیں ہیں کہ انتخابی سال ہونے کی وجہ سے ہی سہی لیکن حکومت اس کے زخموں پر مرہم لگائے گی۔

اب دیکھنا ہوگا کہ 5 سال تک اپنے ’من کی بات‘ لوگوں کو سنانے والی مودی حکومت آخری بجٹ میں عام لوگوں کے ’من کی بات‘ سنتی ہے یا نہیں!