لوٹ کر لے گئے سب دوست اثاثہ میرا
اپنے گھر بار کو تم لوگ بچاکر رکھنا
ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کا مسئلہ اب سارے ہندوستان میں توجہ کا مرکز بننے والا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اچانک ہی انتخابات سے عین قبل بہار میں یہ مہم شروع کی تھی ۔ جس طرح سے الیکشن کمیشن یہ کام کر رہا ہے اس پر کئی طرح کے شبہات اور سوالات پیدا ہو رہے ہیں اور ان کا جواب الیکشن کمیشن کی جانب سے نہیں دیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے لگاتار اس مسئلہ پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کے طریقہ کار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے باوجود بھی کمیشن خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور وہ انتخابی عمل کا حصہ رہنے والی سیاسی جماعتوںہی کی رائے کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہو رہا ہے ۔ جس طرح سے الیکشن کمیشن نے یہ ساری مہم شروع کر رکھی ہے اس پر کئی طرح کے خیال ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اب یہ واضح کردیا ہے کہ جو عمل بہار میں شروع ہوا ہے اسے سارے ملک میں اختیار کیا جائے گا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کے عمل کے دوران آدھار کارڈ ‘ ووٹر آئی ڈی کارڈ اور راشن کارڈ کو بطور ثبوت قبول کرنے کوتیار نہیں ہے جبکہ ان ہی دستاویزات کی بنیاد پر کئی دوسرے دستاویزات جاری کئے جاتے ہیں۔ پاسپورٹ کودستاویز کے طورپر قبول کرنے کی بات کی جا رہی ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ بغیر آدھار کارڈ کے پاسپورٹ تیار نہیں کیا جاسکتا ۔ جس دستاویز کی مدد سے پاسپورٹ تیار ہوتا ہے اس کو بطور ثبوت قبول نہیں کیا جا رہاہے اور پاسپورٹ کو قبول کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آدھار کارڈ ملک کے 90 فیصد سے زائد افراد کے پاس موجود ہے جبکہ پاسپورٹ بہت کم لوگ رکھتے ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوںکے عوام کی اکثریت پاسپورٹ کے حصول پر توجہ نہیں دیتی کیونکہ انہیں اس کی ضرورت ہی درپیش نہیں ہوتی ۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ وہ آدھار کارڈ ‘ ووٹر آئی ڈی کارڈ اور راشن کارڈ کو ناموں کے اندراج کیلئے بطور ثبوت قبول کرنے پر غور کرے ۔ الیکشن کمیشن اب سپریم کورٹ کے مشورہ کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور اسی وجہ سے اس سارے عمل کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں ۔
ملک کی صرف ایک ریاست بہار میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 66 لاکھ ووٹ فہرست سے خارج ہوجائیں گے ۔ اب یہی عمل اور اسی طرح سے جس طرح بہار میں کیا جا رہا ہے سارے ملک میں شروع کیا جائے گا ۔ یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ ملک بھر میں کروڑ ہا افراد کے ناموں کو فہرست رائے دہندگان سے حذف کردیا جائیگا اور ان کے حق رائے دہی کو سلب کرلیا جائیگا ۔ یہی وجہ ایجنڈہ ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کا رہا ہے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے قائدین وقفہ وقفہ سے مسلمانوں کو رائے دہی کے حق سے محروم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں اور اب مسلمانوں اور دوسرے دلت ا ور پسماندہ طبقات کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سمت عملی کوشش شروع کی جاچکی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کے ذریعہ کروایا جا رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو شہریت کے دستاویز جانچنے یا دیکھنے کا یا ان پر کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ یہ کام وزارت داخلہ کا ہے ۔ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہونے کے باوجود برسر اقتدار جماعت کے اشاروں پر کام کرنے سے گریز نہیں کر رہا ہے جس کی وجہ سے کمیشن کی اہمیت اور افادیت بھی متاثر ہونے لگی ہے ۔ گذشتہ دنوں بہار میں ایک سروے کیا گیا تھا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ بہار کے 27 فیصد دلتوں اور دیگر پچھڑے ہوئے طبقات کو الیکشن کمیشن پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے ۔ اس سے کمیشن کی ساکھ جس حد تک متاثر ہوکر رہ گئی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہ گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کمیشن کو نہ ملک کے جمہوری عمل کی پرواہ رہ گئی ہے اور نہ ہی خود کی ساکھ متاثر ہونے سے کوئی فرق پڑ رہا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔
اب جبکہ الیکشن کمیشن نے بہار کا طریقہ کار ہی سارے ملک میں اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر ملک کی تمام ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو اس مسئلہ میں حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ صرف بیان بازیوں اور زبانی جمع خرچ سے یہ عمل رکنے والا نہیں ہے ۔ اس کے خلاف عملی جدوجہد کی جانی چاہئے ۔ ملک کے کروڑوں عوام کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کے ناپاک عزائم کو کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ ملک کے جمہوری عمل کو کھوکھلا کرنے کی کوشش ہے اور اس کو ناکام بنانا سب کی ذمہ داری ہے ۔ ملک کے عوام کو بھی اس معاملے میں چوکسی اختیار کرنا چاہئے اور اپنے حق رائے دہی کو بچانے کیلئے سرگرم ہونا چاہئے اور دستور و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جدوجہد کی جانی چاہئے ۔
ہند ۔ برطانیہ تجارتی معاہدہ
ہندوستان و برطانیہ کے مابین آزادانہ تجارتی معاہدہ کو قطعیت دیدی گئی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ برطانیہ کے موقع پر اس معاہدہ کو طئے کیا گیا ہے ۔ ایک ایسے وقت جبکہ دنیا بھر میں تجارتی اتھل پتھل جاری ہے اور خاص طور پر امریکہ کی جانب سے مختلف ممالک کو نشانہ بناتے ہوئے تجارتی معاہدوں کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور شرحیں عائد کی جا رہی ہیں ہندوستان و برطانیہ کے مابین یہ معاہدہ اہمیت کا حامل ہے ۔ اس سے دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو مزید آگے بڑھانے اور مستحکم کرنے میں مدد ملے گی ۔ ہندوستان و برطانیہ کے تعلقات ہمیشہ سے مستحکم رہے ہیں۔ دیرینہ تعلقات کئی شعبہ جات تک وسعت اختیار کر گئے ہیں اور اب جبکہ ساری دنیا میں مینوفیکچرنگ کی اہمیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے دونوں ملکوں کے مابین تجارتی معاہدہ کا طئے پانا دونوں ہی کیلئے اہمیت کا حامل ہے ۔ اس سے ہندوستان کو کافی مدد مل سکتی ہے ۔ ہندوستانی تاجروں کیلئے بھی بہترین مواقع دستیاب ہوسکتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کی مہارت والے شعبہ جات پر خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور ہندوستانی تاجرین کیلئے بہتر امکانات فراہم کئے جانے چاہئیں۔ امریکہ کے ساتھ تجارتی معاملہ پر سرد جنگ کے دوران برطانیہ کے ساتھ معاہدہ قابل خیر مقدم ہے اور اس سے ممکنہ حد تک استفادہ کی کوششیں تیز کی جانی چاہئیں ۔
