چین کی اشتعال انگیزیاں

   

Ferty9 Clinic

ہندوستان اور چین کے تعلقات سرحدی تنازعات کی وجہ سے پہلے ہی سے کشیدگی کا شکار ہیں اور ان میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ چین کی جانب سے اشتعال انگیز کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور وہ یکطرفہ کارروائیوںکے ذریعہ باہمی معاہدات کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا جا رہا ہے ۔ چین ارونا چل پردیش میں کافی بڑے علاقہ پر قابض ہوچکا ہے اور وہاں وہ فوجی تنصیبات کا بھی قیام عمل میں لاتا جا رہا ہے ۔ اس نے وہاں کئی گاوں بھی بسا دئے ہیں۔ ایک فضائی اڈہ قائم کردیا گیا ہے اور سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ان کارروائیوں پر ہندوستان کا رد عمل ہمیشہ ہی محتاط رہا ہے تاہم اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ چین ہماری سرزمین پر اپنے پیر پھیلاتا جا رہا ہے اور یکطرفہ کارروائیوں سے اپنا استحقاق بڑھا رہا ہے اور ایسے میں ہمیں اس تعلق سے فوری حرکت میں آنے اور چین کو اس کی سرزمین پر واپس ڈھکیلنے کی ضرورت ہے ۔ اب چین نے تازہ ترین کارروائی کرتے ہوئے اروناچل پردیش میں تقریبا 15 مقامات کے نام تبدیل کردئے ہیں اور اپنے طور پر نئے نام رکھ دئے ہیں۔ یہ چین کی سینہ زوری ہے کیونکہ ارونا چل پردیش ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس کے علاقوں کے ناموں تبدیل کرنے یا برقرار رکھنے کا حق صرف ہندوستان کا ہے ۔ چین کے اس اقدام سے دونوں ممالک کے پہلے ہی سے کشیدگی کا شکار تعلقات مزید کشیدہ ہورہے ہیں۔ چین کی جانب سے پہلے ہی ارونا چل کے نقشہ میں کچھ مقامات کو اپنا علاقہ بتایا جاتا ہے اور اب وہ ان کے نام اپنے طور پر تبدیل کرتے ہوئے اس کو مزید تقویت دینا چاہتا ہے ۔ چین در اصل اپنے یکطرفہ اقدامات کے ذریعہ اروناچل پردیش میں ہندوستانی علاقہ پر اپنا استحقاق مضبوط و مستحکم کرنا چاہتا ہے لیکن اسے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے طور پرنقشہ میں توڑ مروڑ کرنے اور نام تبدیل کرنے سے حقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہندوستان کی سرزمین پر اس کے دعوی یا کارروائیوں کا کوئی جواز بھی پیدا نہیں ہوسکتا ۔
وزارت خارجہ ہندوستان نے بھی چین کی اس کارروائی پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ محض نام تبدیل کرنے سے حقائق تبدیل نیہں ہوجاتے اور اروناچل پردیش ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ چین کی جانب سے وقفہ وقفہ سے اروناچل پردیش میں اشتعال انگیز کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ڈوکلم تنازعہ کے بعد سے چین کی حرکتوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ سٹیلائیٹ کے ذریعہ جو تصاویر موصول ہو رہی ہیں ان کے مطابق چین نے اروناچل پردیش میں ہندوستانی سرحدات کے اندر کچھ گاوں بھی تعمیر کردئے ہیں۔ وہاں کچھ آبادیاں بھی تعمیر کردی گئی ہیں۔ وہاں فضائی پٹی تعمیر کی گئی ہے ۔ سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں اور ہندوستانی سپاہی یہاں اگر کچھ تعمیراتی کام کرتے ہیں تو انہیں روکا جا رہا ہے ۔ ان کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کی جا رہی ہے ۔ 2017 میں جب دلائی لاما نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا تھا اس پر بھی بیجنگ نے احتجاج کیا تھا ۔ چین ہندوستان کے جن علاقوں پر نظریں لگائے بیٹھا ہے ان میں آٹھ ٹاؤنس ‘ دو دریائیں اور چار پہاڑ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ اروناچل پردیش کے تقریبا 25 اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان سار ے علاقوں پر نظریں لگائے جانے سے یہ شبہات تقویت پاتے ہیں کہ چین سارے اروناچل پردیش پر اپنا دعوی پیش کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے تاہم یہ دعوی کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ یہ بات چین کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ محض اپنے طور پر یکطرفہ کارروائیوں سے حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔
چین نے اس سے قبل بھی ہندوستان کی سرزمین میں در اندازی کی تھی لیکن حکومتی سطح پر اس سے انکار کردیا گیا تھا ۔ سٹیلائیٹ کے ذریعہ جو تصاویر مل رہی ہیں ان سے حکومت کے موقف کی نفی ہوتی ہے ۔ سرزمین ہندوستان کا تحفظ کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے لیکن حکومت اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جس سے متفکر حلقوں میں تشویش پیدا ہونے لگی ہے ۔ حکومت کو اس معاملے میں اپنی خاموشی توڑنے کی ضرورت ہے ۔ اسے اروناچل پردیش میں ہونے والی خلاف ورزیوں پر چین کے ساتھ رجوع کرتے ہوئے اس مسئلہ کا مستقل حل دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ اروناچل پردیش ہو یا پھر ملک کا کوئی دوسرا علاقہ ‘ ایک انچ زمین بھی کسی کو ہتھیانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ خاص طور پر چین کے معاملے میں حکومت کو اپنے موقف کو واضح کردینا چاہئے ۔
ممبئی میں پھر کورونا کا عروج
ہندوستان کے معاشی دارالحکومت عروس البلاد شہر ممبئی میں ایک بار پھر کورونا کا اثر بڑھتا جا رہا ہے ۔ سابقہ دو لہروں میں بھی ریاست مہاراشٹرا اور ممبئی شہر نے کورونا کی بہت زیادہ مار سہی ہے اور وہاں بھاری نقصانات ہوئے ہیں۔ لوگوں کی اموات بھی بہت زیادہ ہوئی ہے ۔ خاص طور پر سلم ب ستیوں اور جھونپڑ پٹی میں اس کا اثر زیادہ دیکھا گیا تھا تاہم ریاست کی مہا وکاس اگھاڑی حکومت نے دونوں ہی مواقع پر صورتحال سے نمٹنے کیلئے سرگرم اقدامات کئے ۔ کئی کوششوں کے بعد اس وائرس کے پھیلاو پر قابو کرلیا گیا تھا ۔ تاہم اب تیسری لہر کا ایسا لگتا ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹرا میں آغاز ہوچکا ہے ۔ جہاں کورونا کے کیس بڑھ رہے ہیں وہیں اومی کرون کے متاثرین کی تعداد بھی ممبئی اور مہاراشٹرا میں خاطر خواہ انداز میں بڑھ رہی ہے ۔ تیسری لہر میں جس تیزی سے کورونا کے کیس بڑھ رہے ہیں وہ انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ خاص طور پر دو لہروں کی تباہی کے بعد تیسری لہر پر قابو پانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کی جانب سے مختلف اقدامات کئے تو جا رہے ہیں لیکن ساتھ ہی عوام کو بھی اس معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ جو ممکنہ احتیاط ہوسکتی ہے اس کو اختیار کرتے ہوئے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ عوام کو سابقہ دو لہروں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے خود کو اور اپنے عزیز و اقارب اور پاس پڑوس کے لوگوں کو اس سے بچانے کیلئے ہر ممکن احتیاط برتنے کی ضرورت ہے جبکہ حکومت کو بھی صورتحال سے نمٹنے بڑے پیمانے پر اقدامات کا فوری طور پر آغاز کرنا چاہئے ۔