ڈاکٹر امبیڈکر پر سیاست

   

ملک میں ایک روایت بن گئی ہے جہاں اصل مسائل سے توجہ ہٹاتے ہوئے ایسے امور پر مباحث کئے جاتے ہیں جن پر مباحث کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کوئی ایک موضوع مل جائے تو سیاسی جماعتیں اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتیں حالانکہ ان کا عمل اس موضوع کے برعکس ہی کیوں نہ رہا ہو۔ آج بھی ہندوستان میں ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ ملک میںدستور کے 75 سال کی تکمیل کے سلسلہ میں پارلیمنٹ میں مباحث ہوئے تھے ۔ ایوان میں دستور کے دفعات اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی سبھی نے کوشش کی ۔ یہ بات چونکہ ایوان کی تھی اس لئے ایسا کیا گیا ورنہ عمل ایسا ہے جو دستور میں فراہم کردہ گنجائشوں کے یکسر مغائر ہے ۔ اب ایوان میں دستور ہند کے معماروں میں سے ایک ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے تعلق سے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی وفاداری ثابت کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لیجانا چاہتی ہیں۔ اپنے اقدامات اور عمل سے ڈاکٹر امبیڈکر کی خدمات کے مغائر کام کرنے والے بھی ایوان میں ان کی ستائش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس سب کا واحد مقصد یہی ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے نام سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے ۔ ڈاکٹربی آر امبیڈکر اس ملک کے باوقار قائدین میں سے ایک ہیں اور انہوں نے دستور ہند کی تیاری میں سرگرم اور اہم رول نبھایا ہے ۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دستور ہند میں ہر ہندوستانی کیلئے سہولیات فراہم کی ہیں۔ انہیں حقوق دئے گئے ہیں۔ ان کے ذمہ فرائض بھی عائد کئے گئے ہیں۔ ملک کے مستقبل کیلئے جو راہ ہونی چاہئے اس کو بھی واضح کیا اگیا ہے ۔ تاہم آج ملک میں ایسے بے شمار کام ہو رہے ہیں جو دستور میں فراہم کردہ گنجائش کے یکسر مغائر ہیں۔ کہیں اقلیتوں کے حقوق تلف کئے جا رہے ہیں تو کہیں ان کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے بنائے گئے دستور پر حلف لینے والی حکومتیں ایسی حرکتوں پر کوئی کارروائی کرنے کی بجائے اپنی خاموشی کے ذریعہ بالواسطہ طور پر اس کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ اقتدار کے نشے میں اقلیتوں کے حقوق کو تلف کیا جا رہا ہے اور ان سے نا انصافی ہو رہی ہے ۔
آج ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے نام کی دہائی دیتے ہوئے مرکز کی مودی حکومت درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے حقوق کی بات کر رہی ہے اور ماضی کے واقعات کا حوالہ دیا جا رہا ہے ۔ اصل بات یہ دکھائی دیتی ہے کہ بی جے پی کانگریس کی جانب سے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے مطاالبات کی وجہ سے پریشان ہے ۔ اسے پسماندہ طبقاات کی تائید سے محرومی کے اندیشے لاحق ہونے لگے ہیں۔ کرناٹک اور تلنگانہ میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہوئی ہے ۔ دوسری ریاستوں میں بھی اسی طرح کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ کانگریس پارٹی قومی سطح پر ایسی مردم شماری کی وکالت کر رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے ذریعہ ہی سماج کے مختلف طبقات کو ملک کی آزادی کے ثمرات میں ان کا مساوی حق دیا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی ایسا کروانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ بی جے پی کو ایسا فیصلہ کرنے پر اعلی ذات والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور بی جے پی اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ اس کے علاوہ بی جے پی پر دستور سے کھلواڑ کرنے کے الزامات بھی عائد ہو رہے ہیں اور مثالیں بھی پیش کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کو ڈاکٹر امبیڈکر کا سہارا لینا پڑ رہا ہے حالانکہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے کبھی ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا احترام نہیں کیا اور نہ ہی ان کے بنائے گئے دستور کا احترام کیا تھا ۔ بی جے پی کے جو نظریہ ساز رہے ہیں انہوں نے ملک کے دستور میں کچھ بھی ہندوستانی نہ ہونے کا دعوی کیا تھا ۔
جس طرح سے کانگریس پارٹی نے گذشتہ لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی پر دستور بدلنے کی کوشش کے الزامات عائد کئے تھے اور اس ے نتیجہ میں جس طرح بی جے پی تنہا اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی اس نے ہی بی جے پی کی صفوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا کردی تھی ۔ بی جے پی اسی صورتحال کو زائل کرنے اور پسماندہ طبقات کی تائید حاصل کرنے کیلئے ڈاکٹر امبیڈکر سے تعلق خاطر کا اظہار کر رہی ہے ۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو حقیقی خراج یہی ہوگا کہ جو دستور انہوں نے بنایا تھا اس پر من و عن عمل کیا جائے اور دستور میں سماج کے تمام طبقات کو جو گنجائش فراہم کی گئی تھی اس کا پورا پاس و لحاظ کیا جائے ۔