واشنگٹن ، 18 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کیلئے نامزدگی حاصل کرنے کیلئے برنی سینڈرز اور جو بائیڈن کے درمیان مقابلہ جاری ہے مگر اب یہ مقابلہ سینیٹر سینڈرز کے ہاتھوں سے بظاہر نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی ریاست ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر برنی سینڈرز کو کشمیر، مشرقِ وسطیٰ اور امریکہ میں مسلمانوں کی حمایت کرنے اور اسلامو فوبیا کے خلاف کھل کر گفتگو کرنے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ برنی سینڈرز امریکہ کی سیاہ فام، افریقی اور اسپینی برادریوں، تارکینِ وطن اور مقامی قبائل کے حقوق اور ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی تفریق کی بھی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میں برنی سینڈرز کو پاکستان اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں اور پاکستانیوں کی جانب سے پذیرائی ملتی رہی ہے۔ انھوں نے گذشتہ سال اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (اِسنا) کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کے خاتمے، رابطوں پر پابندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کڑی تنقید کی تھی۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے امریکی حکومت پر بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق اس مسئلے کے پرامن حل کیلئے کھل کر بولنے پر زور دیا تھا۔ برنی سینڈرز کی جانب سے امریکہ جیسے متنوع معاشرے کے بیشتر طبقات کے مسائل کو اپنی مہم کا حصہ بنانے کے باوجود لگتا ہے کہ وہ اس مہم میں جو بائیڈن سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ستمبر 2019 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن اور ان کے بیٹے سے متعلق معاملہ جولائی میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے ساتھ ایک فون کال میں اٹھایا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ 2020 کے صدارتی انتخابات میں ان کے ممکنہ حریف جو بائیڈن کے متعلق تحقیقات کریں۔ صدر ٹرمپ نے ان الزامات کا انکار کیا تھا
مگر ان الزامات پر کانگریس نے صدر ٹرمپ کا مواخذہ کیا جس میں انھیں سینیٹ نے بری کر دیا تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی نمائندگی حاصل کرنے کیلئے 1991 نمائندوں کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے، اور تاحال جو بائیڈن 1147 جبکہ برنی سینڈرز 861 نمائندوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جو بائیڈن فلوریڈا، ایلینوائے اور ایریزونا میں بھاری فرق سے جیت کے بعد نمائندگی حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ کورونا وائرس کے باوجود فلوریڈا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری مقابلوں میں متوقع ہے کہ تعداد 2016 کے 17 لاکھ ووٹس سے زیادہ ہوگی۔ اس وقت ہیلری کلنٹن نے یہ ریاست جیتی تھی اور اس مرتبہ جو بائیڈن نے یہاں سے فتح حاصل کی ہے۔ یہاں پر ووٹر اکثریتی طور پر ریٹائرڈ افراد پر مشتمل ہیں اور بائیڈن کیلئے یہ ایک قوت ثابت ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر عمر رسیدہ ووٹروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ برنی سینڈرز کے انقلابی جذبے کے بجائے سابق نائب صدر کے بتدریج اصلاحاتی پروگرام سے زیادہ متفق ہیں۔ وسطی فلوریڈا کی سمٹر کاؤنٹی جہاں پر ریاست کے اوسطاً سب سے عمر رسیدہ افراد مقیم ہیں، وہاں سینڈرز تیسرے نمبر پر آئے، بائیڈن اور یہاں تک کہ مائیکل بلومبرگ سے بھی پیچھے، جو رواں ماہ کے اوائل میں مقابلے سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ بائیڈن کو فلوریڈا کے اسپینی ووٹروں میں بھی پذیرائی حاصل رہی، بھلے ہی اولین مقابلوں میں یہ آبادی سینڈرز کی قوت ثابت ہوئی تھی۔ سینڈرز نے ٹیکساس اور نیواڈا میں برتری حاصل کی مگر ان دونوں ریاستوں کے برعکس فلوریڈا کی ہسپانوی برادری کیریبیئن اور جنوبی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے۔