کانگریس میں تنظیمی رد و بدل کے اشارے

   

کانگریس پارٹی اپنے تنظیمی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کی تیاریاں کر رہی ہے ۔ کانگریس کا احمد آباد میں ورکنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں پارٹی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور رد و بدل کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ کانگریس کی جو فی الحال صورتحال ہے اس کے مطابق یہ رد وبدل اور تبدیلیاں بہت ضروری ہوگئی تھیں اور ان کو جلد مکمل کیا جانا چاہئے ۔ کانگریس پارٹی کو جس طرح سے انتخابی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اورا سے جو شکستوں سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے اپنی صفوں میں استحکام پیدا کرنے کی ضروررت ہے اور یہ استحکام موجودہ ڈھانچے سے ممکن نظر نہیں آ رہا تھا ۔ کافی سے زیادہ تجربہ موجودہ ڈھانچہ پر کرلیا گیا تھا تاہم نتائج حسب توقع برآمد نہیں ہوئے جس کے نتیجہ میں یہ تبدیلیاں ضروری ہی سمجھی جا رہی تھیں۔ فی الحال ملک میں کوئی انتخابات نہیں ہو رہے ہیں تاہم بہت جلد ملک کی مختلف ریاستوںمیں انتخابی عمل شروع ہوسکتا ہے ۔ اس کیلئے پارٹی کو تیاری کرنے کی ضرورت ہے ۔ تنظیمی سطح پر رد و بدل کے ذریعہ پارٹی کی صفوںمیں استحکام پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ نچلی سطح سے اعلی سطح تک رابطوں اور اشتراک کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ضرورت کے وقت فیصلہ کرنے میںکوئی تاخیر نہ ہونے پائے اور جس طرح کی تجویز پیش کی گئی ہے کہ ضلع کانگریس صدور کے اختیارات میںاضافہ کیا جاسکتا ہے تو یہ بھی بہت ضروری عمل کہا جاسکتا ہے ۔ ضلع کی سطح پر اگر فوری اور بروقت فیصلے کئے جاتے ہیں تو اس سے کارکنوںاور قائدین میںاعتماد پیدا ہوسکتا ہے ۔ جو ضلع کانگریس صدور ہیں ان کی بھی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوسکتا ہے اوروہ ان کی تکمیل کیلئے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ ضلع سطح سے قومی سطح تک اس طرح کے فیصلے کرنے کی بھی پارٹی کو ضرورت ہے ۔ کئی ایسے امور ہیں جن پر بروقت اور صحیح فیصلے کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے اور عوام کی تائید و حمایت حاصل کی جاسکتی ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے ۔ جس طرح کے حالات ملک میںپیدا ہونے لگے ہیں ان میں کانگریس کو اپنے استحکام پر توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔
لوک سبھا انتخابات میںکانگریس پارٹی نے اپنی کارکردگی میں بہتری لائی تھی ۔ اس کی نشستوں کی تعداد بھی دوگنی ہوگئی تھی ۔ اس کے بعد کانگریس پارٹی کو ہریانہ اور مہاراشٹرا میں بھی کامیابی کی امید تھی تاہم دونوں ہی ریاستوں میںپارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس کی جو کچھ بھی وجوہات رہی ہوں وہ اپنی جگہ الگ ہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان ریاستوں میں شکستوں کے نتیجہ میں جہاں پارٹی کیڈر اور کارکنوں میں مایوسی پیدا ہوگئی تھی وہیں گودی میڈیا کو بھی پارٹی کو نشانہ بنانے کا مواد دستیاب ہوگیا تھا ۔ ملک بھر میں ایک بار پھر سے کانگریس کے تعلق سے منفی تبصرے اور ریمارکس میں شدت پیدا ہوگئی تھی ۔ کچھ حلیف جماعتیں بھی کانگریس کی اس طرح کی انتخابی کارکردگی سے مایوسی کا شکار ہوئی ہیں۔ ایسے میں پارٹی کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود کو مستحکم کرنے اور ایک بار پھر عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے سرگرم ہوجائے ۔ کمرکس لے ۔ پارٹی نے اب تنظیمی سطح پر خود کو مضبوط کرنے اور بڑے پیمانے پر رد و بدل اور تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ پارٹی کیلئے بہت ضروری ہے ۔ پارٹی کو نوجوانوںاور خواتین کو بھی موقع دینے اور انہیںآگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور جو اشارے ملے ہیںان کے مطابق پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں خواتین اور نوجوانوں کو آگے بڑھایا جائے گا اور دلتوں و دیگر پسماندہ طبقات کی نمائندگی میں بھی اضافہ کرنے کا پارٹی نے فیصلہ کیا ہے ۔ اس طرح کے فیصلے پارٹی کیلئے اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔
پارٹی کی تنظیمی حالت کو مستحکم کرنے اور اسے مضبوط کرنے کے علاوہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پارٹی میں انتخابی مشنری کو بھی مستحکم اور رواں دواں کیا جائے ۔ عوام سے رابطوں کے پروگرامس بھی تیار کئے جائیں اور اس بات پر توجہ مرکوز کی جائے کہ انتخابات میں پارٹی کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر کیا جاسکے ۔ ہندوستانی سیاست میں انتخابی نتائج بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور اس پر خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی نے جو شروعات کی ہے اسے ہر سطح پر آگے بڑھانے اور سماج کے تمام طبقات کو موثر اور مناسب نمائندگی دیتے ہوئے آگے بڑھنے اور اپنی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔