کرناٹک ‘ بی جے پی کی مشکلات

   

اب جبکہ جنوبی ریاست کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کی رائے دہی کیلئے ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آتی جا رہی ہے ۔ ویسے تو یہ سرگرمیاں پہلے ہی سے چل رہی تھیں تاہم جس وقت سے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوا ہے اس طرح کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار بہت زیادہ متحرک دکھائی دینے لگے ہیں۔ بی جے پی کیلئے ریاست میںمشکلات کا سلسلہ گذشتہ ماہ سے ہی چل رہا ہے ۔ بی جے پی کے کچھ ارکان اسمبلی اور ارکان کونسل نے پارٹی سے استعفی پیش کرتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ جس وقت سے کچھ سروے میں ریاست میںکانگریس کو اقتدار ملنے کے آثار دکھائے گئے ہیںا س وقت سے کچھ قائدین میں بے چینی پیدا ہونے لگی تھی اور وہ بی جے پی سے ترک تعلق کرتے ہوئے کانگریس میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان میں کچھ قائدین وہ بھی ہیں جنہوں نے کانگریس سے بغاوت کرتے ہوئے ریاست میں بی جے پی کے اقتدار پر پچھلے دروازے سے قابض ہونے کی راہ ہموار کی تھی ۔ اس کے علاوہ ریاست میں رائے عامہ بھی بی جے پی کے خلاف پائی جاتی ہے ۔ عوام میں حکومت سے ناراضگی دکھائی دے رہی ہے ۔ لوگ تبدیلی کے حامی دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومت پر کرپشن کے جو الزامات عائد کئے گئے ہیں اور جو واقعات پیش آئے ہیں ان کی وجہ سے بھی حکومت کی نیک نامی متاثر ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں پارٹی کے انتخابی امکانات بھی متاثر ہونے لگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کچھ سینئر قائدین کو نظر انداز کئے جانے کی شکایات نے بھی پارٹی کو مشکل صورتحال کا شکار کردیا ہے ۔ سابق چیف منسٹر جگدیش شیٹر نے کھلے عام پارٹی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ ان کو پارٹی نے اشارہ دیا تھا کہ وہ اپنے حلقہ سے دستبردار ہوجائیں اور نئے چہروں کو موقع دیا جائے ۔ پارٹی نے جگدیش شیٹر کو ٹکٹ نہ دینے کا اشارہ دیا تھا ۔ حالانکہ ابھی تک اس میں باضابطہ کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ جگدیش شیٹر اس بات سے ناراض ہیں اور انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ انتخابات میں مقابلہ کریں گے ۔
جگدیش شیٹر کا اعلان تھا کہ انتخابات سے دور رہنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ انتخابی مہم بھی شروع کرچکے ہیں۔ شیٹر نے کہا کہ وہ چھ مرتبہ کے منتخب رکن اسمبلی ہیں۔ ہر بار اچھی اکثریت سے انہوں نے جیت حاصل کی ہے اور ان کا کوئی منفی ریکارڈ بھی نہیں ہے ۔ وہ اپنی مہم میں مزید تیزی پیدا کریں گے اور مقابلہ ضرور کریں گے ۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے قائدین بھی ہیں جنہیں پارٹی ٹکٹ سے محرومی کا اندیشہ لاحق ہے ۔ یہ قائدین بھی پارٹی کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکتے ہیں۔ ان کو بھی ناراضگی درپیش ہوسکتی ہے اور وہ بھی پارٹی کے فیصلوں کے خلاف عمل کرسکتے ہیں۔ جب ریاست میں بی جے پی کی جانب سے اپنے امیدواروں کا باضابطہ اعلان کردیا جائیگا اس وقت ساری صورتحال واضح ہوجائے گی اور بی جے پی کی مشکلات میںاضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کی ریاستی اور مرکزی قیادت صورتحال کو بہتر بنانے کی اپنی جانب سے حتی المقدور کوشش کر رہی ہے لیکن حالات اس کیلئے سازگار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ بی جے پی سماج کے کئی گوشوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اسی کوشش کے طور پر مسلمانوں کو دستیاب چار فیصد تحفظات کوٹہ برخواست کرتے ہوئے اسے ووکالیگا اور لنگایت برادری میں بانٹ دیا گیا اس کے باوجود بھی بی جے پی کو ان طبقات کی مکمل تائید دستیاب ہونے کا یقین نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ بی جے پی کی جانب سے عوام پر اثر انداز ہونے کیلئے فلمی شخصیتوں کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ کچھ فلمی شخصیتیں بی جے پی کے ساتھ ضرور ہیں لیکن وہ انتخابی مہم میں حصہ لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی اس طرح کی کوششوں سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ رائے عامہ اس کے حق میں دکھائی نہیں دے رہی ہے اس لئے وہ سماج کے مختلف طبقات کی تائید حاصل کرنے کیلئے آخری لمحات میں کوشش کر رہی ہے ۔ اس کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہونگی یہ تو وقت ہی بتائیگا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کرناٹک میں حالات بی جے پی کے حق میں سازگار دکھائی نہیں دیتے اور اسے مشکلات کا سامنا ہے ۔