کرناٹک میں بھی این آر سی

   

سچ کہا تو میرا سَر تن سے گیا
قتل کا ڈر بھی میرے من سے گیا
کرناٹک میں بھی این آر سی
ملک میں آسام وہ پہلی ریاست ہے جہاں این آر سی کی قطعی اشاعت عمل میں لائی گئی ہے اور 19 لاکھ سے زائدافراد کے نام اس فہرست سے خارج کردئے گئے ہیں۔ ان افراد پر اب خود کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے کی ذمہ داری عائد کردی گئی ہے اور اس کیلئے وہ عدالتی اور قانونی راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ مرکز میں نریندرمودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے این آر سی کو ایک طرح سے سیاسی ہتھیار بنالیا ہے ۔ مخالفین کو ڈرانے اور دھمکانے کیلئے این آر سی کی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال میں بھی این آر سی لاگو کرنے کے اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ ملک کے وزْر داخلہ امیت شاہ سارے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کے حامی ہیں۔ بی جے پی کے مختلف قائدین کی جانب سے بھی ایسے مطالبات کرتے ہوئے عوام میں ایک طرح کی بے چینی پیدا کی جا رہی ہے ۔ اس سے ماحول پراگندہ ہونے کے اندیشے ہیں۔ عوام میں بے چینی کی کیفیت کو دور کرنا حکومت کا کام ہے تاہم خود حکومت ایسی بے چینی پیدا کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ آسام ایک سرحدی ریاست ہے اور وہاں بنگلہ دیشی یا دوسرے مقامات کے شہریوں کی آمد کے اندیشے ظاہر کئے جاتے رہے تھے ۔ اسی طرح دوسری شمال مشرقی ریاستوں میں بھی ایسے ہی اندیشے ظاہر کئے جاتے رہے ہیں ۔ یہ ریاستیں بھی ملک کی سرحدی ریاستیں ہیں ۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال کی سرحد بھی بنگلہ دیش سے ملتی ہے اور یہ آسام کی سرحد پر بھی واقع ہے ایسے میں یہاں بھی این آر سی نافذ کرنے کے اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ اب ملک میں جنوبی ریاست کرناٹک کی حکومت نے بھی این آر سی نافذ کرنے پر غور کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی حکومت چند ماہ قبل ہی قائم ہوئی تھی اور اسے ابھی ریاست کے حالات اور انتظامیہ پر گرفت مضبوط بنانے کا موقع نہیں ملا ہے ۔ حکمرانی اور عوامی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے این آر سی کی بات کرتے ہوئے عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ اس سے حکومت کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکمرانی پر توجہ نہیں رہ گئی ہے ۔
اگر مرکزی حکومت سارے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کی بات کرتی ہے تو اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک اور عوام کو جو مسائل پریشان کر رہے ہیں ان سے عوام کی توجہ ہٹاکر انہیں اپنے ہی مسائل میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ این آر سی کے تعلق سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ خود ملک کے عوام پر ہی بار ثبوت عائد کیا جا رہا ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی شہریت ثابت کریں۔ طریقہ کار یہ ہونا چاہئے کہ سارے ہندوستانیوں کی شہریت پر سوال کرنے کی بجائے جن کی شہریت پر حکومت یا سرکاری ایجنسیوں کو شبہات لاحق ہیں ان سے حکومت اپنے شبہات پر جواب طلب کرے اور اپنے شبہات کی وجہ بھی بتائے ۔ یہ بہتر طریقہ ہوتا اور جو واقعی بیرونی اور غیر قانونی تارکین وطن ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ۔ انہیں ملک کے شہری رجسٹر میں جگہ نہیں دی جاتی اور قانون کے مطابق کوئی کارروائی حکومت کرتی ۔ تاہم ایسا نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ ہر ہندوستانی شہری کو ہی شک کے گھرے میں لایا جا رہا ہے اور شہریوں پر ہی اپنی شہریت کا ثبوت پیش کرنے کا بوجھ عائد کیا جا رہا ہے ۔ آسام کی مثال ہمارے سامنے ہیں جہاں کئی برسوں سے فوج میں خدمات انجام دینے والوں تک کو اس رجسٹر سے باہر کردیا گیا ہے اور کئی نسلوں سے مقیم افراد کے نام بھی اس فہرست میں جگہ حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ کئی بے قاعدگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔
ملک کو غیر قانونی تارکین وطن اور بیرونی شہریوں سے پاک کرنا یقینی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ایسا کرنے کے نام پر سارے ہی ہندوستانیوں کو شک کے گھیرے میں لا کھڑا کرنا ناانصافی ہے اور بار ثبوت عوام پر عائد کرنا بھی ایک ظلم ہی ہے ۔ آسام کی مثال یہ بھی سامنے ہے کہ جن کے نام اس فہرست میں جگہ نہیں پاسکے ہیں اب انہیں عدالتی کشاکش اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑیگا ۔ اپنی محنت کی کمائی قانونی جنگ میں خرچ کرنی ہوگی ۔ بیشتر غریب خاندان کو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے حاصل کرتے ہیں ان پر قانونی عمل کا خرچ عائد کردیا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ سلگتے ہوئے اور فوری توجہ کے طالب مسائل اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے اور کرناٹک میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ حکومتوں اس کی بجائے بہتر حکمرانی پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔