کمارا سوامی ‘ سکیولرازم خیرباد !

   

بہت ہے قید کی میعاد سرفروشوں کی
فضا قفس کی جو راس آگئی تو کیا ہوگا
بالآخر وہی ہوا جس کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ کرناٹک میں اپنے وجود کی جنگ لڑنے کیلئے مجبورہوچکی جنتادل سکیولر نے اپنی بقا کو یقینی بنانے کیلئے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ یہ وہی دو جماعتیں جنہوں نے گذشتہ مہینوں کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف انتہائی شدت سے مقابلہ کیا تھا ۔ انتہائی شدید تنقیدیں ایک دوسرے پر کی گئی تھیں۔ سخت ترین ریمارک ایک دوسرے کے خلاف کئے گئے تھے ۔ کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات بھی عائد کئے گئے تھے ۔ تاہم اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار کامیابی اور بی جے پی و جے ڈی ایس کی کراری شکست کے بعد دونوں ہی جماعتوں کو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی ۔ جہاں تک جنتادل ایس کا سوال ہے تو وہ خود کو سکیولر قرار دیتی رہی تھی ۔ سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا اور سابق چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی خود کو سکیولر قرار دیتے رہے ۔ سکیولر اتحاد میں شامل رہے تھے اور وقفہ وقفہ سے بی جے پی پر تنقیدیں کرتے رہے تھے ۔ بی جے پی قائدین بشمول وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ بھی جے ڈی ایس پر شدید ریمارکس کر رہے تھے اور تنقیدوں کا نشانہ بنا رہے تھے ۔ تاہم ریاست میں کانگریس نے اسمبلی انتخابات میں جس طرح سے کامیابی حاصل کی اور عوام کی جو شاندار تائید اسے حاصل ہوئی اس نے دونوں ہی جماعتوں میں فکرپیدا کردی تھی ۔ دونوں ہی جماعتیں اس شکست سے خود کو ابھارنے کیلئے سہارے کی تلاش کر رہی تھیں اور دونوں کو ایک دوسرے کا سہارا مل گیا ۔ اس سلسلہ میں جے ڈی ایس کی جانب سے کوششوں اور دونوں جماعتوں کے اتحاد و مفاہمت کے تعلق سے گذشتہ چند دنوں سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ جنتادل ایس کے قائدین بشمول کمارا سوامی کی جانب سے ان قیاس آرائیوں اور اطلاعات کی نہ تردید کی گئی تھی اور نہ ہی تردید کی گئی تھی ۔ آج دہلی میں کمارا سوامی نے وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا سے ملاقات کی اور این ڈی اے اتحاد میں شمولیت کا اعلان کردیا ۔
اسمبلی انتخابات میں جنتادل ایس کو اپنے طاقتور گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں اتنی عوامی تائید نہیں مل سکی جتنی اسے توقع تھی ۔ اسے کچھ اپنے ہی اہمیت کے حامل حلقہ جات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ریاست میں مسلم رائے دہندے بھی اسمبلی انتخابات میں جے ڈی ایس کی بجائے کانگریس کے ساتھ ہوگئے تھے ۔ سماج کے دیگر اہم طبقات کی جانب سے بھی کانگریس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا گیا تھا ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ جے ڈی ایس کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ بی جے پی کی حالت حالانکہ جنتادل ایس کی طرح بہت زیادہ کمزور نہیں ہوئی لیکن پارٹی کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ جنوبی ہند میں اس کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 2024 پارلیمانی انتخابات میں کم ہونے نہ پائے ۔ جنوب میں بی جے پی کا وجود صرف کرناٹک میں مستحکم تھا ۔ لوک سبھا میں یہاں سے بی جے پی کے تقریبا 20 ایم پی پہونچے تھے ۔ ریاست میں کانگریس اقتدار میں آنے کے بعد یہ حالات بگڑنے شروع ہوئے ہیں۔ جنتادل ایس کا وجود بھی کمزور ہوگیا ہے ۔ اسے تو عوام میں اپنی اہمیت کو بحال کرنے کی جدوجہد تک کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں ہی جماعتوں نے ایک دوسرے کا سہارا بننے اور خود سہارا حاصل کرنے کیلئے یہ اتحاد کیا ہے اور اس میں اپنے نظریات اور اصولوں وغیرہ کو سے ترک تعلق کردیا ہے ۔ جنتادل ایس نے بی جے پی سے اتحاد کے ذریعہ ایک طرح سے سکیولرازم کو ہی خیرباد کہہ دیا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنتادل ایس نے ماضی میں بھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا ۔ یہ اتحاد زیادہ دیرپا نہیںرہا تھا ۔ دونوں جماعتوں میں صرف اقتدار کا حصول یا پھر اقتدار میں حصہ داری کے جذبہ کو ہی فوقیت حاصل رہی تھی ۔ دونوں میں پالیسیوںاور پروگرامس یا نظریات کا کوئی اتفاق نہیں تھا ۔ اب بھی دونوں جماعتوںنے ریاست میں محض اپنی شناخت بچانے اور پارلیمانی انتخابات میں عوامی تائید حاصل کرنے کے مقصد سے یہ اتحاد کیا ہے ۔ اگر پارلیمانی انتخابات کے نتائج ان جماعتوں کیلئے توقعات کے مطابق نہ رہیں تو دونوں جماعتوں کے اس اتحاد کا مستقبل کیا ہوگا اس کا اندازہ ابھی سے کیا جاسکتا ہے ۔