اپوزیشن پارٹیوں میں انتخاب کے بعد ہی سہی، اگر اتحاد دیکھنے کو ملتا ہے تو وہ نریندر مودی حکومت کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔ اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی تعداد 200 سے کم ہی ہے، لیکن اس سے بھی کسی صحت مند جمہوریت میں حکومت پر کنٹرول اور دباؤ بنانے میں مشکل نہیں ہوگی۔ کہیں بھی اپوزیشن کا کام سرکاری پالیسیوں اور پروگراموں پر سخت نگاہ رکھنا ہے اور یہ کام بخوبی ہو سکتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ اس بار ایک لہر نے مودی کو اقتدار تک دوبارہ پہنچایا ہے لیکن جیت کا سہرا بہت کچھ اپوزیشن پارٹیوں کے ووٹوں میں بکھراؤ کو جاتا ہے۔ اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ پارلیمنٹ تک پہنچنے والے اپوزیشن لیڈر اس بات کو محسوس کریں گے کہ اگر ان میں اب بھی اتحاد نہیں رہا تو آنے والے دن مزید مشکل بھرے ہوں گے۔ اس معاملے میں اپوزیشن پارٹی اب اپنی انا کو کم کریں گے، تب ہی انھیں اپوزیشن مسائل پر مودی حکومت پر دباؤ بنانے میں مدد ملے گی۔
یقیناً اس میں انھیں کاگنریس کو اپنے ساتھ رکھنا ہوگا اور بڑے مسائل پر آپس میں تال میل بنانا ہوگا۔ جن پارٹیوں نے اس بار کانگریس کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا ہے، انھیں تو اس میں دقت نہیں ہی ہوگی۔ کانگریس کے بعد ڈی ایم کے پارٹی کے پاس سب سے زیادہ تعداد ہے اور اس بار دونوں پارٹیوں نے مل کر الیکشن لڑا تھا۔ یہی بات این سی پی کے ساتھ بھی ہے۔ لیکن جو پارٹی ان انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے خلاف لڑ رہے تھے، لیکن بی جے پی کے ساتھ جانا انھیں اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی خودکش لگتا ہے، ان کے لیے کناگریس کے ساتھ (کم از کم پارلیمنٹ میں) تال میل بٹھانا ہی ہوگا۔
ایسی پارٹیوں میں ترنمول کانگریس سب سے اہم ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی جانتی ہیں کہ اگر انھوں نے بی جے پی کو ذرا بھی جگہ دی تو انھیں اسمبلی انتخابات میں پریشانی ہوگی۔ بی جے پی نے ممتا اور ترنمول کو ان انتخابات میں شکست دینے کے لیے جس طرح اپنی جان لگا دی، اس سے یہ صاف ہے۔ بھلے ہی کانگریس بھی بنگال میں انتخاب لڑ رہی تھی لیکن اس نے اس طرح کا عمل اختیار نہیں کیا اور سیاسی مقابلہ آرائی کی حدود میں ہی اپنی انتخابی تشہیر کی۔ ایسے میں ممتا کے پاس بی جے پی سے نمٹنے کے لیے پارلیمنٹ میں کانگریس کے ساتھ تال میل بٹھانا ایک بہتر متبادل ہے۔
یہ اندازہ بی ایس پی کو بھی ہو گیا ہوگا کہ ہندوتوا کے نام پر بی جے پی اس کے ووٹ بینک کو کافی نقصان پہنچا چکی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر اس نے بھی اس بار کئی سیٹیں حاصل کی ہیں۔ بی ایس پی بھی کانگریس اور بی جے پی سے یکساں دور رکھنے کی بات کہتی رہی ہے، لیکن جس طرح کے حالات بنے ہیں، اس میں ایس پی اور بی ایس پی دونوں کے لیے پارلیمنٹ میں کانگریس کے ساتھ جانے-رہنے کا متبادل ہے۔ کانگریس اور لیفٹ کے ساتھ مل کر یہ سبھی علاقائی پارٹیاں اگر ایک دوسرے کی پارلیمنٹ میں مدد کریں تو اپوزیشن ذمہ دارانہ کردار نبھا سکتی ہے۔
اس بات پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی کہ جس طرح کی کامیابی بی جے پی کو ملی ہے اس میں مودی-شاہ کی جوڑی اپنے ساتھی پارٹیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتی ہے۔ انتخابات سے پہلے اتحاد بنانے کے لیے ساتھی پارٹیوں نے بی جے پی پر کافی دباؤ بنا رکھا تھا۔ بہار میں بی جے پی نے کئی ایسی سیٹیں اپنے معاونین کے لیے چھوڑ دی تھیں جن پر وہ 2014 کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مہاراشٹر میں شیو سینا نے بھی بالکل آخر وقت میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد پر مہر لگائی تھی۔ مودی-شاہ کے طریقہ کار سے سبھی واقف ہیں، اس لیے آنے والے دنوں میں این ڈی اے کی معاون پارٹیوں پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی۔
V