حادثوں اور امتحانوں سے گذرنے کے بعد
چہرے سے اب برستی ہے تابندگی
کولکتہ کے آر جی کار ہاسپٹل میںخاتون ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل واقعہ میں بالآخر ملزم کو خاطی قرار دے دیا گیا ہے ۔ اس کی سزا پیر کو اعلان کیا جائیگا ۔ آر جی کار ہاسپٹل میںپیش آئے اس بھیانک واقعہ نے سارے ملک میں برہمی کی لہر پیدا کردی تھی ۔ سارے ملک میں اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا گیا اور عوام نے اپنی بے چینی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے خاطی کو جلد اور سخت سزا کا مطالبہ کیا تھا ۔ اس معاملہ پر مغربی بنگال میں سیاست کو بھی گرمانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ بی جے پی نے سارے واقعہ کا سیاسی استحصال کرنے کی کوشش کی تھی اور ممتابنرجی حکومت پر ایسے واقعات کی روک تھام میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا تھا ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے بے شمار واقعات ملک کی مختلف ریاستوں میں پیش آتے ہیں۔ اس کے باوجود ان پر روک تھام کیلئے کوئی جامع اور موثرا قدامات نہیں کئے جاتے ۔ بی جے پی نے ان تمام واقعات پر ایسا لگتا ہے کہ آنکھیں موند لی ہیں اور محض بنگال حکومت کو نشانہ بنانے کیلئے اس واقعہ کا استحصال کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اس طرح کے واقعات کا سیاسی استحصال کرنے سے ہرکسی کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک ملزم کا سوال ہے تو اسے عدالت نے عصمت ریزی اورق تل واقعہ کے بہیمانہ واقعہ کا مجرم اور خاطی قرار دیدیا گیا ہے ۔ اس کی سزا کا تعین کیا جانا باقی ہے جو پیر کو کیا جائیگا ۔ عدالت نے تیزی سے معاملہ کی سماعت کی ہے اور جہاں تک استغاثہ کا سوال ہے تو اس نے بھی بسرعت تحقیقات کی تکمیل کی ہے اور عدالت کو مطمئن کیا کہ یہی خاطی ہے جس نے انتہائی بہیمانہ حرکت کی ہے ۔ کسی بھی جرم کے بعد پولیس اور استغاثہ کو اسی تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاں تک عصمت ریزی اور قتل جیسے واقعات اور جرائم کا سوال ہے تو یہ بتدریج عام ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی اقدار اور روایات کے یکسر مغائر ہیں۔ ایسے جرائم کی کسی بھی سماج میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے اور خاص طور پر ہمارے معاشرے اور سماج میں تو اس طرح کے جرائم کی بطور خاص نفی کی جانی چاہئے اور خاطیوں کو عبرتناک سزائیںدی جانی چاہئیں۔ خاطیوں کو نشان عبرت بنایا جانا چاہئے تاکہ دوسروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے ۔
آر جی کار معاملے میں جس طرح سے کولکتہ کی پولیس نے تحقیقات کو انجام دیا گیا ہے اور تیزی کے ساتھ فرد جرم عائد کی ہے اور پھر عدالت نے فاسٹ ٹریک انداز میں سماعت کرتے ہوئے ملزم کو خاطی قرار دیدیا ہے تو یہ ایک اچھی علامت ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ محض ان مخصوص واقعات پر توجہ دینے پرا کتفاء نہیں کیا جانا چاہئے جن پر میڈیا کی توجہ ہوگئی ہو ۔ عصمت ریزی اور قتل کا ہر معاملہ شرمناک اور سنگین ہی ہوتا ہے ۔ متاثرہ چاہے ڈاکٹر ہو یا پھر کوئی کھیت مزدور ہی کیوں نہ ہو ہر ایک کے ساتھ مساویانہ انداز میں نمٹا جانا چاہئے ۔ عصمت ریزی اور قتل کے معاملات میں تحقیقات کیلئے علیحدہ ونگ قائم کیا جاسکتا ہے اور اس کو چند دنوں میں تحقیقات کی تکمیل کی ذمہ داری دی جاسکتی ہے تاکہ ملزمین کو سزائیں دلانے میں آسانی ہو اور انصاف رسانی کے عمل میں تیزی لائی جاسکے ۔ میڈیا کی توجہ پانے والے چند ہی معاملات میں تیزی دکھانا اور دیگر معاملات میں قدیم روایتی ٹال مٹول والے اقدامات سے خواتین کی عصمت و عفت کا تحفظ کرنا ممکن نہیں ہوسکتا ۔ خاطیوں میں قانون کا ڈر پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس طرح کے جرائم کے ارتکاب سے گریز کریں۔ موجودہ انصاف رسانی کا جو طریقہ کار ہے وہ متاثرین کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ ملزمین عدالتوں سے کچھ وقت بعد ضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور پھر وہ آزاد زندگی جیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں قانون کا ڈر نہیں رہ گیا ہے ۔ متاثرین ہمیشہ ایک اذیت کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں اس اذیت سے چھٹکارہ دلانا اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہونچانا مہذب سماج کیلئے بہت زیادہ ضروری ہے ۔
جس طرح سے آر جی کار معاملے میں تیز رفتار تحقیقات کی گئیں اور عدالت سے سزاء دلائی گئی وہ قابل خیر مقدم ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت مجرم کیلئے کس سزا کا تعین کرتی ہے ۔ یہ متاثرہ خاندان کیلئے مکمل نہ صحیح لیکن قدرے راحت کی بات ضرور کہی جاسکتی ہے ۔ متاثرہ خاندان کو تسلی اور دلاسہ ضرور ہوسکتا ہے ۔ عدالت کا یہ فیصلہ ایسے انتہائی حساس اور اہم مسائل پر بھی سیاست کرنے والوں کیلئے بھی ایک سبق کہا جاسکتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو ایسے مسائل پر سیاست کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور انہیں اپنے فائدہ کی بجائے متاثرین سے انصاف رسانی اور خاطیوں کو سزائیں دلانے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔
اداکار سیف علی خان پر حملہ
اداکار سیف علی خان پر گذشتہ دنوں ان کے گھر میں گھس کر حملہ کیا گیا ۔ کہا جا رہا ہے کہ حملہ آور در اصل چوری کی غرض سے ان کے گھر میں داخل ہوا تھا اور سیف علی خان اپنی ملازمہ کی چیخ پکار پر بیدار ہوئے اور انہوں نے حملہ آور کا مقابلہ کیا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے ۔ یہ واقعہ حالانکہ سیف علی خان تک محدود ہے تاہم یہ بھی ضرور ہے کہ بالی ووڈ اداکاروں کو ایک طرح سے راڈار پر رکھ لیا گیا ہے ۔ کبھی سلمان خان کے گھر پر فائرنگ کی جاتی ہے تو کبھی سیف علی خان کے گھر میں گھس کر ان کو چاقو گھونپا جاتا ہے تو کبھی کسی اور اداکار کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کبھی کسی سے بھاری رقومات طلب کی جاتی ہیں تو کبھی کسی کے خلاف بدنام کرنے والی مہم چلائی جاتی ہے ۔ اس طرح کے واقعات کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ ایک بڑی صنعت سے وابستہ افراد کو اگر اس طرح سے نشانہ بنایا جاتا رہا تو پھر اس کے اثرات یقینی طور پر مرتب ہوسکتے ہیں ۔ ایسے واقعات کی روک تھام زیادہ ضروری ہے اور مہاراشٹرا حکومت کو ان واقعات کا نوٹ لیتے ہوئے موثر حکمت عملی تیار کرنی چاہئے ۔