کون کب کونسی سرکار میں آجائے گا

   

مہاراشٹرا … ہندوتوا پر سیکولرازم قربان
کانگریس اور این سی پی کا امتحان

رشیدالدین
سیکولرازم نے آخر کار ہندوتوا سے سمجھوتہ کرلیا۔ خود کو سیکولرازم کے چمپین قرار دینے والے کانگریس اور این سی پی نے اقتدار کیلئے سیکولرازم کے اصولوں کو ہندوتوا نظریات پر قربان کرتے ہوئے شیوسینا سے دوستی کرلی۔ اقتدار اور کرسی کے لئے نظریات اور اصولوں سے انحراف کی یوں تو کئی مثالیں ہیں، جن میں علاقائی جماعتوں کو مختلف ریاستوں میں بی جے پی کے ساتھ دوستی اور اتحاد کرتے دیکھا گیا۔ کانگریس اور بائیں بازو نے کبھی بھی فرقہ پرست طاقتوں سے ہاتھ نہیں ملایا، بھلے ہی سیاسی طور پر نقصان ہی کیوں نہ ہوں۔ جواہرلال نہرو اور اندرا گاندھی نے اپنے خون جگر سے جس پارٹی کی آبیاری کی اور سیکولرازم کو بنیادی اصول بنایا، آج کی قیادت کے قدم ڈگمگانے لگے۔ نرم ہندوتوا کو اختیار کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کی کوشش کے بعد اب مہاراشٹرا میں گرم ہندوتوا کو گلے لگا لیا۔ سیاسی جماعتوں کا عروج و زوال نئی بات نہیں۔ پارلیمنٹ میں 300 سے زائد نشستیں رکھنے والی بی جے پی کا سفر لوک سبھا کی محض دو نشستوں سے شروع ہوا تھا ۔ اس طویل سفر میں شائد ہی کبھی اصولوں سے انحراف کیا گیا ۔ مہاراشٹرا میں بال ٹھاکرے نے ہندوتوا نظریات پر شیوسینا کی بنیاد رکھی اور گزشتہ 30 برسوں میں شیوسینا نے نظریات کے بارے میں قدم پیچھے نہیں ہٹائے بلکہ کٹر ہندوتوا کی علامت بن کر بی جے پی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ 2014 ء میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد کانگریس کو نرم ہندوتوا اختیار کرنے کا خیال آیا۔ 2019 ء عام چناؤ میں کامیابی کیلئے کانگریس قیادت نے ہندو رائے دہندوں کو راغب کرنے مندروں سے انتخابی مہم شروع کی پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نرم ہندوتوا اختیار کرنے سے سیکولر رائے دہندے بھی کانگریس سے دور ہوگئے اور 2014 ء کے مقابلہ نشستوں کی تعداد مزید کم ہوگئی۔ کانگریس نے اس بات کو فراموش کردیا کہ ملک کے عوام کی اکثریت سیکولرازم پر اٹوٹ ایقان رکھتی ہے۔ نرم ہندوتوا کیلئے عوام نے جو سزا دی، اس کے باوجود کانگریس قیادت کو ہوش نہیں آیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس قائدین کو اقتدار کی عادت ہوچکی ہے اور وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ 2019 ء میں عوامی سزا سے سبق لینے کے بجائے مہاراشٹرا میں شیوسینا سے اتحاد کر کے مجاہدین آزادی کے اصولوں کو ٹھوکر ماردی۔ این سی پی کا شیوسینا سے اتحاد کوئی چونکا دینے والا اور غیر متوقع اقدام نہیں ہے۔ شرد پوار کا سیاسی کیریئر توڑ جوڑ اور سیاسی قلا بازیوں سے پر ہے۔ وہ مہاراشٹرا میں بی جے پی کی تائید اور فڈنویس حکومت کو بچانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ شیوسینا سے اتحاد میں شرد پوار کی اپنی مجبوریاں اور مفادات کارفرما ہیں۔ شرد پوار کی اصول پسندی کا بھرم اس وقت کھل گیا جب راتوں رات بغاوت کر کے بی جے پی کے ساتھ حکومت تشکیل دینے والے بھتیجے اجیت پوار کو معاف کر کے گھر واپسی کی گئی۔ دیویندر فڈنویس جو اجیت پوار کو جیل میں چکی پسوانا چاہتے تھے، ان کے ساتھ ڈپٹی چیف منسٹر کا حلف لیتے ہوئے دوسرے ہی دن ہزاروں کروڑ کے اسکام میں کلین چٹ حاصل کرلیا اور تیسرے دن وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ بغاوت کے باوجود اجیت پوار کی جس طرح آؤ بھگت اور والہانہ انداز میں گھر واپسی ہوئی ، کہیں ایسا تو نہیں کہ بی جے پی حکومت سے کلین چٹ حاصل کرنے یہ ڈرامہ رچا گیا ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتحاد کے ذریعہ شیوسینا سیکولر ہوگئی یا کانگریس اور بی جے پی نے ہندو توا قبول کرلیا ۔ اقل ترین مشترکہ پروگرام میں لفظ سیکولرازم کی شمولیت سے شیوسینا کے ہندو نظریات سے انحراف کی امید کرنا خام خیالی ہے۔ لفظ سیکولرازم کو شامل کرتے ہوئے ہندوتوا سے سمجھوتے پر کانگریس کے دامن پر لگے داغ دھل نہیں جائیں گے۔ کانگریس اور این سی پی نے جو سیکولرازم کی علامت سمجھے جاتے تھے، شیوسینا سے اتحاد کے ذریعہ سیکولرازم کا خون کردیا۔ کانگریس نے موقع پرستی کے بدترین مظاہرہ کے ذریعہ ملک میں سیکولر طاقتوں کو کمزور کیا ہے ۔ فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف قومی سطح پر بائیں بازو کے علاوہ علاقائی سطح پر ممتا بنرجی اور اروند کجریوال بچ گئے ہیں۔ باقی قومی اور علاقائی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں بی جے پی کی حلیف ہیں۔ کانگریس نے حکومت کی باہر سے تائید پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حکومت میں شامل ہوگئی۔ عوام نے کانگریس اور این سی پی کو مہاراشٹرا میں جو زائد نشستوں پر کامیابی دلائی وہ شیوسینا کی تائید کرنے نہیں تھی۔ عوام کے فیصلہ کو بے خاطر کرتے ہوئے دونوں نے ہندوتوا طاقتوں کے پاس پناہ لے لی۔ کئی حلقوں میں دونوں پارٹیوں کو شیوسینا کے مقابلہ کامیابی ملی۔ کانگریس کے ناعاقبت اندیش فیصلہ سے مہاراشٹرا میں پارٹی کا وجود خطرہ میں پڑسکتا ہے ۔ ادھو ٹھاکرے کو کسی بھی صورت چیف منسٹر کا عہدہ چاہئے تھا جس کے لئے سیکولرازم پر دستخط کرنا ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سیکولرازم پر ان کا اعتراف اسی طرح ہے جس طرح نریندر مودی اور امیت شاہ نے دستور پر حلف لیا جس میں سیکولرازم ملک کی بنیاد ہے۔ حلف تو سیکولرازم کی پاسداری کا لیکن عمل ہندوتوا کی طرف پیشقدمی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے شیواجی پارک سے چیف منسٹر کی اننگز کا آغاز کرتے ہوئے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کا اشارہ دے دیا ہے جنہوں نے اسی میدان سے ہندوتوا کے تحفظ کیلئے شیوسینا کے قیام کا اعلان کیا تھا ۔ نظریاتی اعتبار سے بی جے پی سے زیادہ کٹر اور شدت پسند شیوسینا ہے ۔ چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالتے ہی ادھو ٹھاکرے نے پہلا فیصلہ شیواجی کے قلعوں کے تحفظ کے لئے 20 کروڑ روپئے منظوری کا کیا۔ اس فیصلہ سے ان کے نظریات اور منصوبوں کا اظہار ہوتا ہے۔ کانگریس اور این سی پی بھلے ہی اقل ترین مشترکہ پروگرام تیار کریں لیکن یہ ضروری نہیں کہ چیف منسٹر اس پر عمل آوری کریں۔ دونوں پارٹیوں کا امتحان ہے کہ وہ شیوسینا کو اقل ترین پروگرام پر عمل آوری کیلئے پابند کریں۔
اقتدار کی ہوس نے کانگریس کو اس قدر اندھا کردیا کہ اس نے شیوسینا کی مسلم دشمنی کی تاریخ کو فراموش کردیا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جس طرح دوستی میں دوست کی برائیوں اور خامیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ، اسی طرح کانگریس نے اقتدار کیلئے اپنے نئے دوست کے پرانے جرائم کو بھلادیا ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت میں شیوسینا کے رول، بال ٹھاکرے کا مسجد کی شہادت پر فخر کا اظہار، ممبئی کے مسلم کش فسادات میں شیوسینا کے رول کے علاوہ لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصب کو ملک کے عوام کبھی بھلا نہیں پائیں گے لیکن افسوس کہ اقتدار میں حصہ داری کیلئے کانگریس اور این سی پی نے سب کچھ ہضم کرلیا ۔ اگر واقعی شیوسینا نے اپنے ہندوتوا نظریات کو ترک کرتے ہوئے سیکولرازم کو اختیار کرلیا ہے تو اسے بابری مسجد شہادت اور ممبئی فسادات میں رول کیلئے عوام سے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔ ممبئی فسادات کے بارے میں سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ آج بھی عمل آوری کی منتظر ہے، جس میں شیوسینا کے رول کو بے نقاب کیا گیا تھا ۔ کانگریس حکومت نے بھی سری کرشنا کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کی جرات نہیں کی۔ اب جبکہ مخلوط حکومت قائم ہوچکی ہے اور ’’سیکولرازم ‘‘ کو بار بار بنیادی ایجنڈہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے تو کیا کانگریس اور این سی پی سری کرشنا کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کیلئے حکومت پر دباؤ بنائے گی؟ اگر واقعی دونوں پارٹیاں سیکولرازم پر برقرار ہے تو انہیں سری کرشنا کمیشن رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے اس کا ثبوت دینا ہوگا۔ اقل ترین مشترکہ پروگرام کی تیاری کے وقت کانگریس کے بعض مسلم قائدین نے5 فیصد تحفظات کو شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی لیکن اطلاعات کے مطابق شیوسینا نے اسے قبول نہیں کیا۔ سیکولرازم ، سوشلزم اور جمہوریت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کانگریس اور این سی پی نے جارحانہ فرقہ پرستی اختیار کر کے عوام کو مایوس کیا ہے ۔ شیوسینا سے اتحاد کے مسئلہ پر کانگریس میں اختلافات منظر عام پر آگئے ۔ کئی سرکردہ قائدین نے شیوسینا سے اتحاد کی مخالفت کی اور یہاں تک کہا کہ اگر مہاراشٹرا میں دوبارہ اسمبلی الیکشن کی نوبت آتی ہے تو کانگریس کو اس کیلئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ سیکولرازم کے اصولوں پر برقراری کے نتیجہ میں نتائج مزید بہتر آسکتے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے کی حلف برداری تقریب میں سونیا گاندھی ، راہول گاندھی کی عدم شرکت سے پارٹی میں پھیلی بے چینی آشکار ہوچکی ہے۔ سونیا اور راہول کو ایک طرف مہاراشٹرا کے پارٹی قائدین کو خوش کرنا ہے تو دوسری طرف سیکولرازم کے حامیوں کو تقریب میں عدم شرکت کے ذریعہ مطمئن کرنا ہے۔ شیوسینا سے مفاہمت کے بعد کانگریس کے مسلم قائدین کی ایمانی حرارت کا امتحان ہے۔ اقتدار ہی سب کچھ نہیں ہوتا، اصولوں اور اقدار پر برقراری عوام کے دلوں میں جگہ بناسکتی ہے۔ غلام نبی آزاد سے عوام کو امید تھی کہ وہ اس فیصلہ کی مخالفت کریں گے لیکن ان کے بشمول دیگر مسلم قائدین بھی خاموش رہے اور ہندوستان کے کسی بھی حصہ سے کانگریس کے مسلم قائدین نے ہندوتوا پارٹی سے اتحاد پر اعتراض نہیں کیا۔ بال ٹھاکرے کی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہرے سانپ سے تعبیر کیا تھا اور حجاب پر پابندی کے مطالبہ میں پارٹی پیش پیش رہی۔ ادھو ٹھاکرے آخر جانشین تو بال ٹھاکرے کے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل ادھو ٹھاکرے نے ایودھیا کا دورہ کرتے ہوئے متنازعہ اراضی پر موجود مندر کے درشن کئے تھے۔ مہاراشٹرا اسمبلی نتائج کے بعد بی جے پی کے ساتھ تشکیل حکومت کی سرگرمیوں کے دوران ادھو ٹھاکرے نے دوبارہ ایودھیا جانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن کانگریس اور این سی پی کی تائید حاصل کرنے کیلئے لمحہ آخر میں دورہ منسوخ کردیا گیا۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے موجودہ حالات پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
چور اچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں
کون کب کونسی سرکار میں آجائے گا