گوکھلے‘ میوانی اور پٹیل کی گرفتاریاں نہ صرف چند افراد کے خلاف قانونی کاروائی نہیں ہے‘ یہ ان لوگوں میں بے چینی کے بڑھتے ہوئے احساس کی نمائندگی کرتی ہیں جو اپنی رائے دیناچاہتے ہیں۔
احمد آباد۔سیاسی حساسیت کے سایہ میں حالیہ دنوں میں گجرات نے تنقید کے خلاف عدم برداشت کے ثبوت فراہم کئے ہیں جواختلاف رائے کے گھٹتے ماحول کے وسیع تر قومی رحجان کی عکاسی کے مترادف ہے۔ اس قسم کے دوواقعات ہیں جسکا محوراہم سیاسی شخصیات ہیں جو اظہار خیال کی آزادی پر پڑنے والے اثرات کی وضاحت کرتے ہیں۔
ٹی ایم سی رکن پارلیمنٹ ساکت گوکھلے کا معاملہ
ڈسمبر2022کے آخر میں ساکت گوکھلے ترنمول کانگریس کے لیڈر کو گجرات پولیس نے گرفتار کرلیاتھا۔ ان کی حراست کو وزیراعظم نریندر مودی کے موربی پل تباہی سانحہ کے مقام پر دورہ سے متعلق غیرمصدقہ نیوز پر مشتمل ایک ٹوئٹ سے منسوب کی گئی تھی۔
جئے پور سے گوکھلے کو گرفتار کیاگیاتھا او رانہیں اے سی پی جیتندر یادو کی نگرانی میں احمد آباد سائبر سل لایاگیاتھا۔
کانگریس رکن اسمبلی جگنیش میوانی‘ صحافی اکار پٹیل
اسی طرح کا واقعہ کانگریس رکن اسمبلی جگنیش میوانی کے ساتھ پیش آیاجس کو آسام پولیس نے حراست میں لے کر گوہاٹی لے گئی۔ ان کاجرم؟ایک مبینہ ”اشتعال انگیز“ ٹوئٹ وزیراعظم کے خلا ف تھا۔
اس گرفتاری نے دیکھا یا کہ کس طرح ان لائن اظہار خیال کے نتیجے میں سیاسی شخصیات کو قانونی چارہ جوئی کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ گجرات میں عدم روداری کی سابق کی خبروں پرمشتمل مثالوں کو جاری رکھتے ہیں تو ایک اور واقعہ ستمبر2020میں پیش آیاتھا جو اس علاقے میں اظہار خیال کی آزادی پر کار مزیدکارب نمایا ں کرتا ہے۔
صحافی آکار پٹیل کو ایک کمیونٹی کے خلاف جارحانہ سمجھے جانے والے ایکس پر پوسٹ نے صحافی آکار پٹیل کوگجرات پولیس کی حراست میں پہنچادیا۔
پٹیل جنھیں پیشگی ضمانت مل گئی تھی‘ بی جے پی رکن اسمبلی جو گجرات میں مودھ مودی کمیونٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں او رایک سیاسی جماعت سے وابستگی کے لئے علاوہ سماجی کارکن کی حیثیت رکن والے نیش ایشور بھائی مودی کی ایک شکایت پر قانونی شکنجے میں پھنس گئے۔ پٹیل کے خلاف الزامات شدید تھے۔
ان پر اپنے ٹوئٹس کے ذریعہ جان بوجھ کرفرقہ وارانہ تفریق کوہوا دینے اور ہند وگھاچی برداری جو وزیراعظم نریندر مودی کی بھی برداری ہے جو بدنام کرنے کا ان پر الزام لگایاگیاتھا۔پٹیل کے خلاف ایف ائی آر میں ٹوئٹس کی ایک سیریزکا حوالہ دیاگیاہے جنہوں نے ظاہری طور پر مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو ہوا دی اوربی جے پی‘ آر ایس ایس کو تشددسے فائدہ اٹھانے والوں کے طور پرپیش کیا ہے۔