قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری
حضرت شیخ شمس الدین صواب علیہ الرحمہ جس وقت روزہ مقدسہ کے خادم تھے اُسی دوران رات میں کچھ بے ایمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق ؓ کے اجسادِ مبارکہ کو حلب لیجانے کی سازش کی تو اُس وقت مدینہ طیبہ کا امیر نہایت بے حس اور دنیا دار شخص تھا اُس نے مال وزر کی لالچ میں انہیں خفیہ طور پر اجازت دیدی جب وہ داخل ہوئے تو حضرت صواب نے اُنہیں شمار کرنا شروع کیا وہ چالیس آدمی تھے ابھی حجرۂ مبارکہ کے قریب بھی نہ پہنچ پائے کہ زمین پھٹی اور سب کہ سب اندر گھس گئے اور پھر آج تک ان میں سے کسی کا کچھ پتہ نہ چلا یہ واقعہ تاریخ میں (واقعہ خسف ) کے نام سے مشہور ہے۔ (الریاض النصرہ)حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ طعن و تمسخر‘ ان کی ایذا رسانی اور توہین و بے ادبی وہ جُرم عظیم ہے کہ خدائے قہّار و جبّار کا قہر و غضب ان مجرموں کو کبھی معاف نہیں فرماتا۔ ایسے لوگوں کو کبھی زلزلوں کے جھٹکوں سے ان کی آبادیوں پر پتھر برساکر ان کو برباد کردیا۔ کچھ ذِلّت کے ساتھ قتل ہو گئے۔ کچھ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہوکر جہنم رسید ہوئے۔اِس زمانے میں بھی جو لوگ بارگاہ نبوت میں گستاخیاں اور بے ادبیاں کرتے رہتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ اُن کے ایمان کی دولت تو غارت ہوہی چکی ہے۔ اب ان شا اللہ تعالیٰ وہ کسی نہ کسی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوکر ذلّت کی موت مرجائیں گے اور دُنیا اُن کے منحوس وجود سے پاک ہوجائے گی۔ سُن لو۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کبھی ہرگز غلط نہیں ہوسکتااور وہ عذابِ الٰہی کی مار سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی فقط ایک ہی شرط ہے کہ صدق دلِ سے توبہ کر کے رسول اکرم ﷺ کی محبت و عظمت سے اپنے دلوں کو معمور و آباد کرکے اپنے قول و فعل اور اعتقاد سے تعظیم و تو قیر نبوی کو اپنا دین شعار بنالیں پھر تم دیکھیں گے کہ ہر قدم پر تمہارے اوپر خداوند قدوس کی رحمتیں کیسی نازل ہوں گی اور خاتمہ باالخیر کی کرامتوں سے تم سرفراز ہوکر دونوں جہاں کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوجاؤگے۔
تقویٰ
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا مجھ کو ایسی آیت معلوم ہے کہ اگر لوگ اس پر عمل کریں تو وہی ان کے لئے کافی ہے ۔ وہ آیت کا ترجمہ یہ ہے : ’’جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل وہ مصائب سے نجات کاراستہ نکال دیتے ہیں اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کاگمان نہیں ہوتا‘‘ ۔ (القرآن)
اس آیت میں تقویٰ کی دو برکتیں بیان فرمائی گئی ہیں ۔ اول یہ کہ تقویٰ اختیار کرنے والے کیلئے اﷲ تعالیٰ دنیا و آخرت کی سب مشکلات و مصائب سے بچنے کاراستہ نکال دیتے ہیں ۔ یعنی جو اﷲ سے ڈرتا ہے ایسا اس کے کام میں آسانی کردیتے ہیں،دنیا وآخرت کے کام اس کیلئے آسان ہوجاتے ہیں ۔ دوسری برکت یہ ہے کہ اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں کا اس کو خیال بھی نہیں ہوتا ۔مومن متقی کیلئے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ اس آیت میں یہ ہے کہ اس کی ہر مشکل کو بھی آسان کردیتے ہیں اور اس کی ضروریات کی بھی کفالت فرماتے ہیں تقویٰ کی فضیلت میں آیا ہے کہ جو اﷲ سے ڈرے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کاکفارہ کردیں گے اور اس کا اجر بڑھادیں گے ۔ لفظ تقویٰ کے معنی بچنے کے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت سے بچے ۔ لہذا ہمیں بھی زندگی کے ہر معاملہ میں تقویٰ اختیار کرنا چاہئے یعنی ہر حال میں ہر وقت یہ بات دل و دماغ میں ہوکہ ہم جو کام کرہے ہیں اور جو بات سوچ رہے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کو معلوم ہے اور ہمیں ڈرنا چاہئے کہ اﷲ ہماری حالت سے باخبر ہے ۔ لہذا ان تمام چیزوں کو چھوڑدینا جن سے اﷲ نے منع فرمایا ہے تقویٰ ہے ۔ اور کسی بھی وقت تقویٰ کا دامن نہ چھوڑنا چاہئے تاکہ اﷲ تعالیٰ ہمارے لئے ہرپریشانی و مصائب میں راستہ نکال دیں اور ہمارے لئے کافی ہوجائیں ۔