گو اگینگ ریپ ‘ چیف منسٹر کا بیان

   

میخانہ اِک سراب ، صنم خانہ اِک طلسم
کچھ ان سے اعتبار نظر کے سوا نہ مانگ
اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ اگر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں کسی لڑکی یا نابالغ لڑکی کی عصمت ریزی ہوتی ہے تو اس کیلئے خاطیوں کو ذمہ دار قرار دینے اور پولیس کی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے متاثرین اور ان کے افراد خاندان کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پولیس اور حکومتیں بری الذمہ ہوتی جا رہی ہیں۔ کہیں کوئی بی جے پی لیڈر لڑکیوں کے جینس پہننے کو عصمت ریزی کی وجہ قرار دیتا ہے تو کہیں پھٹی ہوئی جینس کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کہیں لڑکیوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر اعتراض کیا جاتا ہے تو کہیں والدین کی جانب سے اولاد کو کنٹرول نہ کرنے کی بات کہی جاتی ہے ۔ گوا میں ایک بیچ پر دو کمسن لڑکیوں کی عصمت ریزی کا واقعہ پیش آیا ۔ اس کی ہر گوشے سے مذمت کی جا رہی ہے اور پولیس اور حکومت پر خواتین کے خلاف جرائم روکنے میں ناکامی کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست کے چیف منسٹر نے انتہائی غیرذمہ دارانہ اور قابل مذمت بیان دیا ہے ۔ چیف منسٹر پرمود ساونت ہی گوا میں داخلہ کا قلمدان رکھتے ہیں اور انہوں نے ایوان اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکیاں اور خاص طور پر نابالغ لڑکیاں رات بھر ساحل سمندر پر وقت گذاری کرتی ہیں تو ان کے والدین کو کنٹرول کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کیلئے پولیس یا حکومت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ والدین لڑکیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ چیف منسٹر نے یہ نہیں کہا کہ ساری ریاست پٹرولنگ اور جرائم کی روک تھام کیلئے متعین کی جانے والی پولیس دو لڑکیوں کی عصمت لٹنے سے کیوں نہیں بچاسکتی اور والدین پر ذمہ داری کیوں عائد کی جا رہی ہے ۔ چیف منسٹر اپنے بیان کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جرائم کی روک تھام حکومت اور پولیس کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو گھروں میں قید کردیا جائے ۔چیف منسٹر لڑکیوں اور ان کے والدین کو ایسے واقعات کیلئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے خود اپنی حکومت اور پولیس کی ناکامیوں کا بالواسطہ اعتراف کر رہے ہیں۔
چیف منسٹر کا کہنا تھا کہ رات میں اگر نوجوان لڑکے لڑکیاں بیچ پر وقت گذاری کرتی ہیں تو یہ محفوظ نہیںہے ۔ چیف منسٹر کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر حکومت اور پولیس ہی عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کی ضمانت نہیںدے سکتی اور اس کی حفاظت نہیں کرسکتی تو پھر یہ ذمہ داری کس کی ہے ؟۔ گوا کی یہ روایت رہی ہے کہ اسے لڑکیوںاور خواتین کیلئے محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں لڑکیاں اور خواتین کسی خطرہ کے بغیر نقل و حرکت کرتی ہیں لیکن یہ تاثر بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ بی جے پی اقتدار میں ریاست میں لڑکیوں اور خواتین کی سلامتی اور سکیوریٹی باقی نہیں رہ گئی ہے اور وہ جرائم کا نشانہ بن رہی ہیں۔ جو افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے اس کے مطابق چار افراد نے خود کو پولیس اہلکار ظاہر کرتے ہوئے یہ واردات انجام دی ۔ نقلی اور فرضی پولیس کو روکنا اور ایساکرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ ۔ ایسے واقعات کیلئے کون ذمہ دار ہیں ؟ ۔ کیا وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو ایسے فرضی پولیس اہلکاروں کا نشانہ بنتے ہیں ؟ یا پھر ریاستی حکومت اور پولیس ایسے واقعات کے تدارک کی ذمہ دار ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ریاستی حکومت عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہے تو پھر دن یا رات میں کسی بھی وقت کسی کو اپنے ہی شہر یا اپنی ریاست میں گھومتے ہوئے خوف کھانے کی ضرورت کیا ہے ؟ ۔ کیا عام شہریوں کو خوف کے عالم میں زندگی گذارنی چاہئے اور کیا کہ جرائم پیشہ افراد کھلے عام رات بھر ساحل سمندر پر قانون کی دھجیاں اڑاسکتے ہیں ؟ ۔
اسمبلی میں مباحث کے دوران ایک رکن اسمبلی کا یہ الزام تھا کہ ایک بااثر فرد کی جانب سے خاطیوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایک اور رکن اسمبلی نے الزام عائد کیا کہ ریاست کے ایک وزیر خاطیوں کو ب چانا چاہتے ہیں۔ یہ ایسے الزامات ہیں جو اس جرم کی طرح ہی انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ اس پر بھی چیف منسٹر کو ایوان اسمبلی میں وضاحت کرنے اور جواب دینے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ متاثرین کے والدین کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے پولیس اور حکومت کا دامن بچانے کی کوشش کی ہے ۔ چیف منسٹر کو یہ سمجھنا چاہئے کہ عوام کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت حکومت اور پولیس کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری کسی اور عائد کرتے ہوئے حکومت اپنا دامن نہیں بچاسکتی ۔