ہریانہ میں آج پولنگ

   

دارالحکومت دہلی کی پڑوسی ریاست ہریانہ میںآج رائے دہی ہونے والی ہے ۔ انتخابی عمل سے قبل انتہائی شدت کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں نے یہاں انتخابی مہم چلائی تھی ۔ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں کسی نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور نہ ہی کسی جماعت کی جانب سے رائے دہندوں کو رجھانے میں کوئی کسر باقی رکھی گئی تھی ۔ بی جے پی ریاست میں دس برسوں سے اقتدار میں ہے اور اب وہ اپنے اقتدار کو تیسری معیاد کیلئے برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ۔ کانگریس پارٹی دس برسوں کے بعد ریاست میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ عام آدمی پارٹی اور جن نائک جنتا پارٹی بھی انتخابی میدان میں ہیں اور یہ خدشے اورا ندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ان دونوں جماعتوں کی وجہ سے دونوں قومی سیاسی جماعتوں کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور اقتدار کا کھیل ان کی وجہ سے بگڑ بھی سکتا ہے ۔ تاہم اب جبکہ انتخابی مہم اختتام کو پہونچ چکی ہے اور فیصلہ رائے دہندوں کے ہاتھ میں رہ گیا ہے ۔ رائے دہندوں پر اب ریاست کے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے کی ذمہ داری عائد ہوئی ہے ۔ ریاست کے رائے دہندوں کے سامنے تمام جماعتوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا ہے ۔ جہاں تک انتخابی مہم کی بات ہے تو بی جے پی کی جانب سے عوام کو درپیش مسائل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ صرف مخالفین کونشانہ بنانے یا پھر غیر متعلقہ مسائل کو موضوع بنانے پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے ۔ بی جے پی کے کئی مرکزی قائدین ریاست میں انتخابی مہم کیلئے پہونچے تھے اور انہوں نے گذشتہ دس برس میں بی جے پی حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی یا پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرسکیں۔ کانگریس کا جہاں تک سوال ہے تو اس نے عوام کے مسائل کو ان ہی کے سامنے پیش کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے اور پارٹی کو اقتدار ملنے کی صورت میں ریاست کے عوام کیلئے کئے جانے والے کاموں کی تفصیل بھی پیش کی ہے ۔ عام آدمی پارٹی اور جن نائک جنتا پارٹی کے اپنے مسائل قدرے مختلف رہے ہیں۔
تمام جماعتوں کی سرگرمیوں کے بعد اب اصل فیصلے کا دن ہے اور یہ فیصلہ کسی اور کے نہیں بلکہ خود ہریانہ کے عوام کے ہاتھ میں ہے ۔ گذشتہ دس برسوں میں جو حکومت رہی ہے اس کی کارکردگی سے سب سے زیادہ واقفیت ہریانہ کے رائے دہندے ہی رکھتے ہیں۔ انہیں ہی اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ دس برسوں میں حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش رہی ہے یا نہیں۔ انہیں کانگریس کی جانب سے کئے جانے والے وعدوں کی اہمیت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ علاقائی اور دوسری جماعتوں کے پروگرامس اور منصوبوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کارکردگی کی اساس پر فیصلہ کرتے ہوئے ساری ریاست کے عوام کو اپنا ذمہ دارانہ رول نبھانا چاہئے ۔ ہریانہ کے رائے دہندے مسائل کی بنیاد پر ووٹ کرتے ہوئے سارے ملک کیلئے ایک مثال بھی پیش کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہریانہ کے عوام سیاسی فہم و فراست کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ اشتعال انگیزیوں اور جذباتی نعروں سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ ہریانہ اور ہریانہ عوام کی بہتری کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے استحصال کا شکار ہونے کی بجائے اپنے اور ساری ریاست کے عوام کے مستقبل کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ ایسے میں ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے اور اس ذمہ داری کی تکمیل کرتے ہوئے آج انہیں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہے ۔ ایک ایک ووٹر کی رائے ہی ریاست کے سیاسی مستقبل کے تعلق سے فیصلہ کرسکتی ہے ۔
بھلے ہی سیاسی جماعتوں نے اپنے طور پر رائے دہندوں کو رجھانے کیلئے کچھ بھی کیا ہو ۔ انہوں نے اپنے طور پر کئی طرح کے حربے بھی اختیار کئے ہیں۔ تشہیری مہم بھی بڑی زور و شور سے چلائی گئی ہے ۔ اس کے باوجود رائے دہندوں کے موڈ کا کسی کو پتہ نہیں ہے ۔ ووٹر کس بنیاد پر ووٹ کریگا یہ کوئی دعوی سے نہیں کہہ سکتا ۔ یہ دعوے ضرور کئے جا رہے ہیں کہ ریاست میں تبدیلی کی لہر محسوس ہو رہی ہے تاہم حقیقی صورتحال ووٹوں کی گنتی کے وقت ہی سامنے آئے گی ۔ ہریانہ کے عوام کو اپنے مسائل اور اپنے مستقبل کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے کیلئے آگے آنا چاہئے۔ یہ ان کا جمہوری حق اور ان کا فریضہ ہے ۔