ہند۔ امریکہ تجارتی معاہدہ

   

مجھ جیسے موم دل سے وہ رکھتا ہے دوستی
سنتے ہیں اس کی آگ سے بھی رسم و راہ ہے
گذشتہ ہفتوں سے جاری کشیدگی کے دوران ہندوستان اور امریکہ کے مابین تجارتی معاہدہ کے امکانات ایک بار پھر ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک نے چین کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ پر دستخط کرلئے ہیں۔ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ آئندہ دنوں میں ہندوستان کے ساتھ بھی ایک تجارتی معاہدہ پر دستخظ ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک بڑا تجارتی معاہدہ ہوسکتا ہے ۔ امید کی جا رہی ہے کہ 9 جولائی تک کی جو مہلت ہے اس سے قبل ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ پر دستخط ہوجائیں گے ۔ ہندوستان کی جانب سے ایک اعلی سطح کا وفد امریکہ پہونچ چکا ہے اور وہاں امریکی عہدیداروں کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیلئے بات چیت کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے ۔ حالیہ وقتوں میں ہندوستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں قدرے کشیدگی دیکھنے میں آئی تھی ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک سے زائد مواقع پر یہ دعوی کیا تھا کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کروائی تھی اور تجارت کو فروغ دینے پر زورد یا تھا ۔ ہندوستان نے ہر موقع پر ٹرمپ کے اس دعوی کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ہندوستان نے پاکستان کی خواہش پر جنگ بندی کی ہے ۔ تعلقات میں قدرے کشیدگی ہی اصل وجہ تھی جس کے نتیجہ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کناڈا کا دورہ کرنے کے باوجود امریکہ کا دورہ کرنے ٹرمپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ دنیا بھرک ے معاملات میں اپنے ہی انداز میں اظہار خیال کرنے لگے ہیں اور وہ لگاتار ایسے دعوے کر رہے ہیں جن کے نتیجہ میں کئی ممالک میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔ انہوں نے ابتداء تجارت کے شعبہ ہی سے کی تھی اور کئی ممالک پر بھاری شرحیں عائد کردی تھیں ۔ ان میں ہندوستان بھی شامل تھا ۔ چین پر بھی شرحیں عائد کی گئی تھیں اور چین نے جواب میں امریکی اشیاء پر بھی شرحیں عائد کی تھیں جس کے بعد ٹرمپ کو اپنے موقف میں چین کے تعلق سے نرمی پیدا کرنی پڑی تھی ۔ انہوں نے تمام ممالک پر عائد کی گئی شرحوں کو تین ماہ کیلئے التواء میں رکھنے کا اعلان کیا تھا تاکہ تجارتی معاہدے ممکن ہوسکیں۔
ایک طرح سے ڈونالڈ ٹرمپ مختلف ممالک پر دباؤ بنا کر اپنے انداز میں معاہدوں کو قطعیت دینے کی حکمت عملی کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا تھا کہ انہوں نے ایران کے ساتھ نیوکلئیر معاہدہ کیلئے دباؤ ڈالا تھا ۔ اپنی ہی شرائط پر معاہدہ کرنا چاہتے تھے ۔ ایران کے گریز پر اس کے خلاف جنگ شروع کردی گئی ۔ اسرائیل کو اس معاملہ میں استعمال کیا گیا ۔ اب جبکہ ایران ۔ اسرائیل جنگ بند ہوچکی ہے تو کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے ایران کیلئے تحدیدات ختم کرنے کی گنجائش کے ساتھ بات چیت سے اتفاق کیا ہے ۔ شرحوں کے معاملے میں بھی ٹرمپ اسی حکمت عملی پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے پہلے کئی ممالک پر شرحیں عائد کردیں ۔ پھر ان شرحوں کو تین ماہ کیلئے معطل رکھا اور ممالک پر دباؤ بنایا گیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدہ کو یقینی بنائیں۔ چین نے اپنے موقف کو بھی سخت کیا تو اس کے تعلق سے ٹرمپ کا موقف نرم ہوگیا تھا ۔ اب ٹرمپ نے ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کی امید ظاہر کی ہے تو یہ وضاحت ہونی چاہئے کہ امریکہ نے کوئی شرائط تو عائد نہیں کی تھیں۔ ہندوستان کے معاشی مفادات پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے ۔ تجارت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اس سے معیشت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم کسی کے دباؤ کو قبول کرتے ہوئے کوئی معاہدہ نہیں کیا جانا چاہئے چاہے وہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو ۔ دو طرفہ مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے تجارتی معاہدہ کو قطعیت دی جاسکتی ہے ۔
حالانکہ حکومت ملک کے مفادات کا تحفظ کرنے کے عہد کی پابند ہے تاہم امریکہ کے کسی جھانسہ میں نہیں آنا چاہئے ۔ ملک کے تجارتی مفادات کا پوری طرح سے خیال رکھا جانا چاہئے ۔ امریکی شرحوں کے جواب میں خود ہندوستان کو بھی اپنی شرحیں عائد کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر تجارتی معاہدہ ہوتا ہے تو یہ دونوں ہی ممالک کیلئے نفع بخش ہونا چاہئے ۔صرف امریکی مفادات کی تکمیل سے کام نہیں چل سکتا ۔ پوری احتیاط کے ساتھ معاہدہ کی شرائط کو قطعتی دی جانی چاہئے اور ہندوستانی معیشت اور اس کے استحکام کا پورا خیال کرتے ہوئے مساوی شرائط اور مساوی فواائد کی بنیاد پر یہ معاہدہ کیا جانا چاہئے ۔