محمد یونس دہلوی نہیں رہے ۔ وہ 89سال کے تھے ۔ وہ 60سے 90کے دوران کے بے حد مقبول میگزین شمع اور سشما کے ایڈیٹر اور پبلشر تھے۔ یہ دونوں میگزین لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتے تھے۔انہیں چہارشنبہ کے روز کارول باغ کے قریب شہیدی پورہ کے قبرستان قوم پنج بیان میں سپرد خاک کیاگیا۔
دہلوی صاحب کی بیٹی سعدیہ دہلوی بھی ایک مصنف ہیں اور وہ بیٹے وسیم فلم پرڈیوسر ہیں۔دہلوی صاحب نے اپنی میگزنوں کی اشاعت کو صرف فلموں تک محدود رکھاتھا۔ اس میں وہ کشن چندر‘ عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی جیسی عمدہ کہانی نگاروں کی کہانیوں کی اشاعت کرتے تھے ۔
مشہور مصنف مورخ رخشندہ جلیل بتاتے ہیں کہ نرگس اور مینکاکماری بھی شمع ‘ سشما کے لئے بیچ بیچ میں لکھا کرتے تھے ۔
حالانکہ یہ بات سمجپ سے دور ہے کہ اتنی کامیاب کتابوں کو نکالنے والے پبلشر آہستہ آہستہ کس طرح گوشہ گمنامی میں چلا گیا۔دراصل شمع پبلشر کے پودے کو یوسف دہلوی نے لگایاتھا‘ اسے کو گھنا درخت بنایا ان کے بیٹے محمد یونس دہلوی نے ۔
انہو ں نے شمع پبلشر کو ایک بڑی صنعت بنایا۔ ایک دور میں اس کا ایک وقت میںآصف علی روڈ پر مقامی دفترگلزار ہوا کرتاتھا ۔
وہاں پر مشہور فلم اداکارہ یوسف صاحب سے ملاقات کے لئے پہنچے تھے تاکہ ان کا انٹرویو شمع اور سشما میں شائع ہو۔
حالانکہ کے بعد میں دھیرے دھیرے شمع اور سشما دونوں اپنی اپنی پکڑ کھوتے چلے گئے۔محمد یونس دہلوی صاحب سردارپٹیل مارگ کے بنگلے’شمع گھر ‘ میں مسلسل مشاعرے اور دوسرے ادبی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔گھر آنے والوں کی بہترین طریقے سے مہمان نوازی ہوا کرتی تھی۔ اس گھر کو بعد میں بی ایس پی لیڈر مایاوتی نے خرید لیاتھا۔
پچھلے پچاس سالوں سے دہلوی صاحب کے دوست رہے نواب ظفر جنگ بتاتے ہیں کہ یونس بھائی بہت نفیس اور روایتی شخصیت کے حامل تھے۔ وہ اپنے پرانے دستوں کو بھولتے نہیں تھے۔پرانی دہلی سے سردار پٹیل مارگ منتقل ہونے کے بعد بھی انہوں نے اپنے پرانے یاروں کو بھولایا نہیں تھا۔
وہ ان کے بری وقت میں مدد کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دہلوی صاحب کے خاندان کے بزرگوں نے تقسیم ہند کے وقت پاکستان جانے سے انکار کردیاتھا۔ محمد یونس دہلوی نے جلوس جنازہ میں ان کے پنچابی مسلمانوں کی ہی ہے۔
وہ اپنی برداری کے بزرگ او رسرپرست بھی تھے۔ سب کا غم اور خوشی میں شامل ہوتے تھے۔ اس لئے سب کی آنکھیں نم تھیں۔ دہلی کے پنچابی مسلمانوں کو سوداگران بھی کہاجاتا ہے۔ یہ زیادہ ترکاروباری ہوتے ہیں۔ان میں سے کئی اپنے پرانی خاندانی نام جیسے والیا‘ چاوال‘ سیٹھ بھی اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں۔