غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے نام پر بنائے گئے یو اے پی اے قانون میں ترمیم ایک خطرناک رحجان ہے۔
نریندر مودی کی مرکزی حکومت نے مذکورہ سیاہ قانون میں ترمیم کے ذریعہ حکام کو یہ اختیار دیدیا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی وقت کسی بھی فرد کو دہشت گرد قراردیں اوراس پر جب تک این ائی اے یعنی قومی تحقیقاتی ایجنسی نہیں چاہئے
گی وہ اپنی رہائی‘ ضمانت یا پھر خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے عدالت سے رجوع نہیں ہوسکے گا۔
حالانکہ سال2004میں یواے پی اے قانون لایاگیاتھا مگر اس میں حسب ضرورت ترمیم بھی ہوئی اور اس قانون کے غلط استعمال کی بے شمار مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ مرکزکی بی جے پی حکومت نے اس قانون وہ ترمیم لائی ہے جو قابل فکر ہے۔
سابق میں تنظیموں کو دہشت گرد قراردیاجاتا تھا او ران پر امتناع عائد کرنے کاکام بھی کیاجاتارہا۔ مگر ترمیم کے بعد قومی تحقیقاتی ایجنسی کو اسبات کا اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ انفرادی طور پر اس کام کو انجام دے سکتی ہے۔
پارلیمنٹ میں یواے پی اے بل کو متعارف کرواتے ہوئے مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے دہشت گردی کی زمرہ بندی بھی کی اور بتایا کہ قانون کے تحت کون کون سے لوگ دہشت گردی کے زمرے میں اجائیں گے۔
امیت شاہ نے اپنی تقریر میں واضح کیاہے کہ دہشت گردی کامواد رکھنا یا اس کو تقسیم کرنا بھی دہشت گردی ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ ”دہشت گردی بندوق سے نہیں بلکہ پروپگنڈہ سے فروغ پائی ہے“۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر میں کمیونسٹ نظریات پرمشتمل کتاب رکھتا ہے یاپھر کوئی سرخ کتاب جس میں
ماؤسٹوں کی تاریخ اور اس کی تحریکات کا ذکر ہے تو کیا اس کو بھی دہشت گرد قراردیتے ہوئے ایسے افراد کے خلاف دہشت گردی کے تحت غیر ضمانتی کاروائی کرنے کابھی انتباہ دیاگیاہے۔
یواے پی اے میں ترمیم کے بعد اس طرح اس کو خطرناک بنایاگیا ہے اس پر مشتمل یہ رپورٹ ضرور دیکھیں