لکھنؤ میںعلمااور دانشوروں کی میٹنگ، کورونا کے تناظر میں صورتحال کا جائزہ
لکھنو: سفرحج اور حاجیوں کے مسائل کوحل کرنے کیلئے حافظ نوشاد اعظمی نے گرانقدرخدمات انجام دی ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے جس کا ذکرکرنا مشکل ہے مگر مختصر یہ ہیکہ حج کے معاملات میں ریاست اور ملک کی کوئی بھی حکومت رہی ہو انھوں نے حاجیوں کے مسائل سے چشم پوشی نہیں کی۔ ان خیالات کا اظہار صدر اترپردیش،مسلم کنونشن ، مولانا اقبال احمد قادری نے کیا۔حج کے موجود ہ مسائل کے تعلق سے لکھنو کے علمائے کرام ودانشور شخصیات کی اہم میٹنگ منعقد کی گئی جس کی صدارت مشہور عالم دین اور مسلم کنونشن اترپردیش کے صدر مولانا اقبال احمدقادری نے کی۔میٹنگ میں سب سے پہلے گہرے افسوس کاا ظاہر کیاگیاکہ کورونا کی وجہ سے حج 2020 ہندوستانی حاجی سفر حج نہیں کرسکے اور حج2021 پر بھی خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔ اللہ رب العزت اس بیماری سے جلد از جلد نجات دلائے تاکہ ہندوستانی حاجی سعودی عرب جاکرفریضہ حج ادا کرسکیں۔ میٹنگ میں حافظ نوشاد اعظمی کی خدمات کا اعتراف کیاگیا جواترپردیش اسٹیٹ حج کمیٹی سے دو بار منتخب ہوکر مرکزی حج کمیٹی کے ممبر رہے اور 1998سے حاجیوں کوسہولیات دلانے کے لیے غیر مسلکی اور غیر سیاسی طریقے سے پرامن طریقے سے اس بات کی کوشش کی کہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں حاجیوں کے مسائل کو اٹھایاجائے اور انھیں بیشتر معاملات میں کامیابی بھی ملی۔ حافظ نوشاد اعظمی کی 20سالہ خدمت کا اعتراف کیاگیا۔ وہ تقریبا 2سال سے بیمار ہیں اور انھوں نے اپنی ساری ذمہ داریوں سے خود کو الگ کرلیاتھا، ابھی بھی وہ مکمل طورپر صحت یاب نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ سفر کے لائق ہیں،میٹنگ میں دعا کی گئی اور دعا کی اپیل کی گئی کہ اللہ تعالیٰ انھیں صحت کاملہ عطا کرے تاکہ ماضی کی طرح حج کے مسائل میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے سکیں ۔ اپنی صدارتی تقریر میں مولانا اقبال احمد قادری نے کہا کہ مسٹر اعظمی کی کار کردگی کی ایک لمبی فہرست ہے جس کا ذکرکرنا مشکل ہے مگر مختصر یہ ہے کہ حج کے معاملات میں ریاست اور ملک کی کوئی بھی حکومت رہی ہو انھوں نے حاجیوں کے مسائل سے چشم پوشی نہیں کی، میرے ذاتی علم میں انھوں نے 1998 سے کم سے کم تین بار لکھنو اسمبلی پر مظاہرہ اور گاندھی بھون میں سبھی مکتبہ فکر علما کی حج کانفرنس اور کم سے کم میرے علم میں پانچ بار پارلیمنٹ پر مظاہرہ کیا۔ ادھر تین سال سے اتر پردیش حج کمیٹی نہیں ہے اور سات مہینہ سے مرکزی حج کمیٹی نہیں ہے ، اور مہارشٹر ، دلی جیسی کئی ریاستوں میں بھی حج کمیٹی کی تشکیل نہیں ہوئی ہے ۔مسٹر اعظمی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو23فروری 2021 کو ایک خط لکھ کر یہ درخواست کی ہے کہ حج میں 80% کام وزارت خارجہ کا ہے اور 20% مرکزی حج کمیٹی اور صوبائی حج کمیٹیوں کا ہوتاہے ۔ ۔ 1959 میں بھی حج وزارت خارجہ میں تھا اور حج ایکٹ 2002 بنا تب بھی حج وزارت خارجہ کے سپرد تھا اور یہ اس طرح سے مناسب تھا مگر 2016 میں پی ایم او کے آڈر کے ذریعہ اس کو وزارت خارجہ سے اقلیتی امور میں لایاگیا۔حج ایکٹ 2002 میں تر میم کی کوشش کی جارہی ہے اور حج ایکٹ 2002 کافی بہتر ہے جس کے ذریعہ سے ریاستی حج کمیٹی کے ملازمین کی تنخواہ یں ریاستی حکمومتیں دے رہی ہیں ، پورے ملک کے ریاستی حج کمیٹیوں کے نو نمائندے مرکزی حج کمیٹی میں شامل ہوتے ہیں، اور تین علماے دین کی شرکت بھی لازم ہوتی ہے جس میں دو سنی اور ایک شیعہ عالم ہوتے ہیں، ایکٹ2002 میں دفعہ دی گئی ہے ایکٹ 2002 میں ترمیم کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور حج کو وزارت خارجہ میں بھیجا جائے ۔مولانا اے خان مصباحی نے کہاکہ حافظ نوشاد احمداعظمی کو اعظم گڑھ شبلی کالج میں انکی ایک تقریر سے متاثر ہوکر وہاں کے علما ودانش ور نے ان کو رفیق الحجاج کا خطاب دیا اور یہی خطاب مئو مسلم انٹر کالج میں علما ودانش وروں نے رفیق الحجاج (حاجیوں کے دوست) کا خطاب دیا۔
انھوں نے کہاکہ بیس سے بائیس سال کی خدمات میں حافظ نوشاد اعظمی نے حاجیوں کے دوست ہونے کاعملی ثبوت دیاہے ، آج وہ بیمار ہوتے ہوئے بھی حاجیوں کے مفاد اور حج کمیٹیوں کے حفاظت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔انھوں نے مزیدکہاکہ وزیر اعظم کو جوخط 23فروری 2021 کو لکھا گیا ہے اس کی ہم لوگ حمایت کرتے ہیں اور اپیل کرتے ہیں کہ حج کو اقلیتی امور سے وزارت خارجہ میں منتقل کیا جائے اور حج ایکٹ 2002 میں کوئی بھی ترمیم نہ کی جائے ۔