یکساں سیول کوڈ ایک سیاسی حربہ

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’پھر ہم نے آپ کو دین کے ایک خاص طریقہ پر کردیا سو آپ اُسی طریقہ پر چلے جائیے اور اُن جہلاکی خواہشوں پر نہ چلئے ‘‘ ۔ ( سورہ ٔ جاثیہ ۔۱۸) پھر اﷲ تعالیٰ نے مزید فرمایا: ’’اے لوگو ! بے شک میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ۔ اگر تم اُسے مضبوطی سے پکڑے رکھوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔ وہ ہے اﷲ کی کتاب اور اُس کے نبیؐ کی سنت ‘‘ ۔ (سورۃالاحزاب ۔ ۱۱۔۱۵) رسول اﷲ ﷺ نے اس کی تاکید اپنے خطبۂ الوداع ‘‘ میں کی ۔ (متفق علیہ ) رب العالمین نے خاتم النبین ﷺ کو مبعوث فرماکر انسانیت کے لئے ایک جامع اور مکمل نظامِ حیات عطاء کیا ۔ اسی مکمل نظامِ حیات کا نام اسلام یا شریعت اسلامی ہے ۔ بعد میں اس کو جاننا ’’فقہ ‘‘ اور جاننے والے کو ’’فقیہہ‘‘ کہا جانے لگا ( المتفعی ۔ امام غزالیؒ) فقہ کے لقوی معنیٰ’’علم ‘‘ اور ’’سمجھ ‘‘ ہے ۔ احکام شریعت کا دائرہ پوری انسانی زندگی کو محیط ہے ۔ ( امام شاطبیؒ )
پوری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ شریعت کا اصل موضوع ان پانچ چیزوں کی حفاظت ہے (۱) دین (۲) جان ( ۳) نسل (۴) مال (۵)عقل۔ شریعت اسلامی پر عمل دنیا و آخرت میں کامیابی اور کامرانی کا ضامن ہے ۔ شریعت کا دائرہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے ۔ اس لئے شریعت کے قوانین میں وہ تقسیم نہیں ہے جو آج کے بیشتر ممالک کے دستوروں میں ہے ، اسی لئے اس کو ’’پرسنل لاء ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ انسان کے تمام انفرادی ، اجتماعی ، تمدنی ، مالی ، ثقافتی یا تعزیراتی مسائل کا حل اسلامی شریعت نے پیش کیا ہے اور ہر مومن پر تمام احکام کی پیروی کو ضروری قرار دیا گیا ہے جس میں کوئی شخصی اختیار والا قانون ہے ہی نہیں۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ آج کے ترقی پذیر دور میں بھی پیش آنے والے مسائل کا حل موجود ہے ۔ سارے عالم اسلام میں بے شمار فقہا نے بڑی محنت کی ہے اور بے شمار کتابیں لکھی ہیں جو ہر دور کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ حنفی فقہ کے علاوہ مالکی ، شافعی، حنبلی مسالک کے فقہا نے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں جن میں ہمارے ملک کے فقہا کرام بھی کسی سے کم نہیں۔ نفرت کے سوداگروں نے اپنی جارحانہ تحریکوں سے پورے ملک میں فرقہ پرستی ، مسلم دشمنی کو ہوا دی اور ملک میں یکساں سیول کوڈ (UCC) کے نام پر ملک کے امن و امان کو بگاڑنے کی کوشش کی ۔ اسی فرقہ پرست تحریک کے جواب میں ۱۹۷۳؁ء میں حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی صدارت میں ’’مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ کا قیام عمل میں آیا ۔ جو جمہوری ملک میں جمہوری طرز پر ہے ۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ حکومت کے اس جانب بڑھتے قدم رُک گئے اور وہ محتاط ہوگئی اور اُس کو تمام مسلمانانِ ہند کا اعتماد حاصل ہوگیا اور بورڈ کی آواز حکومت میں اثر کرنے لگی ۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن ندویؒ اور امارات شرعیہ کے قاضی مجاہد اسلام قاسمی کی انتھک کوشش اور مساعی اور اﷲ کے فضل و کرم سے وزیراعظم راجیوگاندھی کے دور میں پارلیمنٹ نے ۱۹۸۶؁ ء میں مسلم خواتین کے لئے ایک نیا قانون پاس کردیا جس سے ۱۹۸۵؁ ء میں سپریم کورٹ کے شاہ بانو کیس کے فیصلے سے لگی مسلم پرسنل لا بورڈ پر جو کڑی زد پڑی تھی کافی حد تک اُس کی تلافی ہوگئی ۔ الحمدﷲ ! اور مسلم پرسنل لاء کے قوانین کو دفعہ دار مرتب (Codify) کردیا گیا تاکہ ملک کی عدالتیں مسلمانوں کے معاملات میں فیصلوں کے وقت اُس کو بنیاد بنائیں۔ یہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا عظیم کارنامہ ہے جس کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر خدانخواستہ مسلم پرسنل لاء کو ختم کرکے ’’یکساں سیول کوڈ ‘‘ نافذ کیا جاتا ہے تو خبردار ہوجائیے کہ قرآن مجید کی چالیس آیتوں اور سینکڑوں احادیث مبارکہ پر عمل سے مسلمانوں کو جبراً محروم ہونا پڑیگا ۔ ذرا سونچئے کوئی مومن یہ ضرب برداشت کرسکتا ہے ؟ مسلمانوں کو اپنی شریعت پر عمل کرنے کا دستوری حق دیا گیا ہے اُسے بھی چھین لینے کی مسلسل سازش کی جارہی ہے اور قانوناً مجبور کیا جارہا ہے جو تمام اہل ملک کیلئے بنائے جائیں اسی کو ’’یکساں سیول کوڈ‘‘ نام دیا جاتا ہے ۔ یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ہم نے اپنے دُنیا کے اعلیٰ ترین منشور کو چھوڑ دیا ہے اور اپنے نجی معاملات کے جھگڑوں کی یکسوئی کیلئے شریعت کورٹ چھوڑکر غیروں کی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اور برسہا برس اُن عدالتوں کے چکر میں اپنا قیمتی وقت ، مال و دولت حتی کہ اپنی زندگیوں کو ضائع کردیتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق ساری دُنیا کے مسلمان اپنے نجی معاملات کی یکسوئی کیلئے 20% فیصد سے کم شرعی عدالتوں سے رجوع ہوتے ہیں یہ المیہ نہیں توکیا ہے ؟ مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم اپنے گھر گھر میں شرعی قوانین نافذ کریں اور اپنے معاملات کی یکسوئی کیلئے صرف شرعی عدالتوں سے رجوع کریں ۔