مولانا انتظار القادری نوری
فطری طورپر انسان میں جوہر محبت واقع ہوا ہے، اسی لئے کوئی انسانی دل ایسا نہیں کہ جس میں کسی نہ کسی شے سے محبت کی جلوہ گری نہ پائی جائے، لیکن اگر آپ انسانی قلوب میں بقدر مشترک پائی جانے والی محبت کا تجزیہ کریں تو اس محبت کی دنیا کو چار طرح کی محبتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱) اپنی ذات سے محبت (۲) وطن سے محبت (۳) مال سے محبت (۴) اولاد سے محبت۔ یہ چار محبتیں ایسی ہیں کہ کسی نہ کسی اعتبار سے ہر انسانی دل میں کروٹیں لیتی ہیں، مگر انسان کے دل میں ان محبتوں کی جلوہ گری کے باوجود اگر آپ غور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ ان محبتوں کے بھی درجات و مراتب ہیں۔ یہ سب محبتیں مساوی نہیں، بلکہ ہر ایک کو دوسری محبت پر فوقیت و برتری حاصل ہے۔
سب سے پہلے آپ وطن کی محبت کا جائزہ لیں۔ کوئی انسانی دل ایسا نہیں کہ جس کے دل میں اپنے وطن سے محبت نہ ہو، مگر آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ وہی انسان جو اپنے وطن عزیز کا عاشق و شیدائی نظر آرہا تھا، وہی انسان بڑی آسان کے ساتھ اور خوشی خوشی اس وطن کی محبت کو دوسری محبت پر قربان کردیتا ہے اور وہ دوسری محبت جان اور مال ہے۔ کبھی انسان اپنی جان کی حفاظت کے لئے یا کبھی تلاش معاش میں وطن عزیز کو خیرباد کہہ کر اس کی محبت پر چھری چلا دیتا ہے۔ اب وہی انسان جو جان و مال کی خاطر وطن عزیز کی قربانی پیش کرچکا تھا، اگر کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوکر جاں بلب ہو جائے تو پھر وہ مال و دولت جو اس نے وطن کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا، پانی کی طرح بہا دیتا ہے، تاکہ کسی طورپر جان بچائی جائے۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ مال کی محبت پر جان کی محبت غالب ہے۔ لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ اپنی جان سے زیادہ انسان کو اپنی اولاد سے محبت ہے۔ آپ نے اکثر و بیشتر والدین کی محبت کا انداز ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ والدین کس طرح اولاد کو کامیاب و خوشحال دیکھنے کی آرزو میں اپنی جان و مال صرف کردیتے ہیں، تاکہ ان کے راحت جاں پُرسکون زندگی گزارسکیں۔کبھی کبھی انسان اس خطرناک ماحول سے بھی دوچار ہوجاتا ہے، جہاں اسے اپنی جان پر کھیل کر اپنی اولاد کی جان بچانا پڑتی ہے اور کہیں کہیں تو انسان اولاد کی محبت میں اپنی جان عزیز بھی قربان کردیتا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ انسان کے نزدیک اپنی جان سے بھی عزیز و محبوب اپنی اولاد ہے۔
الغرض انسانی قلوب میں جلوہ گر مذکورہ چاروں محبتوں میں اولاد کی محبت سب محبتوں پر غالب ہے اور اس محبت کی کرشمہ سازی کو بالفاظ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے نزدیک اس کی محبوب ترین شے اس کی اولاد ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے مال اور اولاد کو فتنہ (آزمائش) سے تعبیر فرمایا ہے اور کہیں ان ہی مال و اولاد کو زینت دنیا سے معنون فرمایا ہے اور اسی زینت دنیا کو ذریعہ آزمائش قرار دے کر خداوند قدوس نے انسان سے اپنی محبت میں صادق ہونے کا ثبوت چاہا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کا اعلان فرمادیا کہ ’’اور ضرور ہم انھیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوش خبری سنادو صبر والوں کو‘‘۔ یعنی مذکورہ بالا چیزوں کی محبت قلوب انسانی میں پیدا کرنے کے بعد رب کائنات انسان کی فطرت بلند سے امتحان لینا چاہتا ہے کہ ’’اے انسان! جس بار امانت (عشق الہی) کو تونے اٹھایا ہے، دنیا کی زیب و زینت، جان و مال اور اولاد کے مقابلے میں تیرے نزدیک کونسی چیز محبوب تر ہے؟‘‘۔ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ان ساری محبتوں کو قربان کردینے والے مرد باوفا کی پہچان اس طرح بھی کرائی گئی ہے، یعنی ’’میری عبادت، میری قربانی، زندگی اور موت سب کچھ اللہ تعالی کے لئے ہے، جو مخلوقات کا خالق و مالک ہے اور جس کا کوئی ساتھی نہیں۔ مجھے میرے خالق کی طرف سے ان ہی باتوں کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔انسان کے اعلی مقام بندگی کا تقاضا تو یہی ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے حضور اپنی محبوب ترین شے قربان کردے اور یہ ثابت ہو چکا کہ انسان کی محبوب ترین چیز اس کی اولاد ہے، لہذا اب اولاد کی محبت کو سامنے رکھ کر ’’لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون o‘‘ کو سمجھا جائے تو اس کی تفسیر یہی ہوگی کہ اگر شہادت گاہ الفت میں عشق الہی فرزند دلبند کی قربانی پیش کردینے کے لئے آواز دے تو ایک عاشق صادق کے عشق کا کمال تو یہی ہے کہ وہ راہ مولا میں اپنی جان و مال کے ساتھ ساتھ فرزند عزیز کی قربانی بھی پیش کردے۔ علامہ اقبال نے ایک مؤمن صادق کی پہچان ہی اس طرح کرائی ہے:
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
یعنی مسلمان ہونا اس کا نام نہیں کہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج تو ادا کرتا رہے، مگر قلب محبت الہی سے خالی ہو، بلکہ ایک سچے مسلمان کی پہچان تو یہ ہے کہ وہ جان و مال اللہ تعالی کی محبت پر قربان کرکے اس کی کبریائی کا نعرہ بلند کرے۔ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لاالہ الااللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد۔
ہمارے مذہب کا ایک نام دین حنیف و ملت ابراہیمی بھی ہے۔ ملت ابراہیمی سے بھی یہی مراد ہے کہ سنت ابراہیمی کے تحت جان و مال اور اولاد کی محبت پر خداوند قدوس کی محبت غالب ہو۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے وادی منٰی میں اپنے سب سے زیادہ محبوب فرزند جلیل حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کرکے خدائے ذوالجلال سے اپنی سچی محبت کا لازوال ریکارڈ قائم فرمادیا۔