۔ 12 فیصد مسلمان اپنی باری کے منتظر

   

اقلیتی بجٹ ہر سال گھٹ رہا ہے
مسلمان اسکیموں، رعایتوں اور سبیڈی سے محروم

محمد نعیم وجاہت
قیام تلنگانہ کا بنیادی مقصد عدم مساوات کا خاتمہ یکساں ترقی۔ سنہرے تلنگانہ کی تشکیل ۔ تعلیمی تجارتی۔ صنعتی و زرعی میدانوں میں تمام طبقات کو یکساں نمائندگی فراہم کرنا تھا۔ ان نظریات کو پیش کرتے ہوئے کے چندر شیکھر راؤ نے علیحدہ ریاست کے حصول کو یقینی بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ لیکن پہلے ہی پانچ برسوں کے دوران انہوںنے اپنا اصلی رنگ دکھانا شروع کردیا۔ پھر وہی 70 سال سے سنائی جانے والی دلتوں کی پسماندگی اور محرومی منظر عام پر لائی جانے لگی۔ دلت کی ترقی کو ریاست اور ملک کی ترقی سے جوڑ کر دکھایا جانے لگا۔ ریاست میں 12 فیصد مسلمان اپنی باری کے اب بھی منتظر ہیں۔ تلنگانہ کے قیام سے قبل کے سی آر نے وعدہ کیا تھا کہ علیحدہ ریاست کا پہلا چیف منسٹر دلت ہوگا جبکہ ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدے پر مسلمان کو فائز کیا جائے گا۔ چیف منسٹر بنتے ہی کے سی آر نے اپنے پہلے وعدے کو فراموش کردیا۔ پہلی میعاد کے لئے دوسرے وعدے پر ضرور عمل کیا گیا۔ 2018 کے عام انتخابات میں ٹی آر ایس کی کامیابی کے بعد مسلمان دوسری میعاد میں ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدے سے بھی محروم ہوگئے۔ ریاست میں ایس سی، ایس ٹی اور بی سی طبقات کے لئے نئی نئی اسکیمات مفادات کروائی جارہی ہیں اور اس پر کروڑہا روپے خرچ کئے جارہے ہیں لیکن اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ترقی کے لئے نا ہی کوئی نئی اسکیم ہے اور نا ہی اسمبلی میں منظورہ بجٹ بھی مکمل جارہا ہے۔ ہر سال اقلیتی بجٹ میں اضافہ ہونا چاہئے مگر بدقسمتی سے اقلیتی بجٹ ہر سال گھٹ رہا ہے۔ بیروزگار مسلمانوں کی لاکھوں درخواستیں اقلیتی مالیاتی کارپوریشن میں زیر التواء ہیں۔ مسلمانوں کو خود روزگار سے وابستہ کرنے کے لئے صرف لاکھوں روپے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن حکومت فنڈز نہ ہونے اور کورونا بحران کی وجہ سے معاشی بحران کا بہانہ کررہی ہے جبکہ دلت بندھو اسکیم کے لئے کروڑہا روپے خرچ کرنے کے لئے تیار ہے اور چیف منسٹر کے سی آر نے ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ مسلمانوں کا المیہ یہ ہیکہ خواتین کو خود مختار بنانے کے لئے آج بھی ان میں سلوائی مشین تقسیم کئے جارہے ہیں اور غریب مسلمانوں میں معمولی آٹو رکشہ یا کاریں تقسیم کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری کوئی اسکیم اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے نہیں ہے جبکہ دلت بندھو اسکیم کے تحت ہر دلت خاندان کے بینک کھاتوں میں فی کس 10 لاکھ روپے جمع کرائے جارہے ہیں۔ بی سی طبقات میں بھینس، گائے، بھیڑ، بکریاں تقسیم کئے جارہے ہیں۔ مچھیروں کے لئے بڑے پیمانے پر مچھلیوں کی افزائش کی جارہی ہیں۔ بافندوں کے لئے بڑے پیمانے پر رعایتی اور سبسیڈی اسکیمات کی جارہی ہے۔ کسانوں کے لئے کسان بندھو۔ رعیتو بیمہ اسکیم پر عمل کرنے کے علاوہ کسانوں کو بیج اور کھاد سبسیڈی پر دی جارہی ہے۔ علیحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد سوائے اقلیتوں کے تمام طبقات یہاں تک کے اعلیٰ طبقات کے غریب عوام کی ترقی و بہبود کے لئے بھی مختلف اسکیمات کو متعارف کرایا گیا ہے اور اس پر کامیابی سے عمل آوری ہو رہی ہے۔ ان تینوں طبقات کو صنعتوں کے قیام اور دوسرے تجارتی سرگرمیوں کے لئے بغیر بینکوں کے تعاون کے کروڑہا روپے تک قرض دیا جارہا ہے اور اس میں بھی 50 تا 80 فیصد تک سبسیڈی دی جارہی ہے۔ لیکن مسلمانوں کو ایسی اسکیمات اور رعایتوں کے علاوہ سبسیڈی سے محروم رکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کی بڑی آبادی کو نظرانداز کرکے ریاست اور ملک کی ترقی کی ہرگز امید نہیں کی جاسکتی۔ پہلے ہی تحفظات کے ذریعہ ایس سی، ایس ٹی اور بی سی طبقات کو کافی فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ تعلمی معاشی اور سماجی طور پر یہ طبقات کافی ترقی کرچکے ہیں۔ ان کی اور مسلمانوںکی آبادی کا جائزہ لیں۔ پھر مستقبل کی حکمت عملی تیار کریں۔ اگر تلنگانہ میں مسلمان 12 فیصد کی آبادی رکھتے ہیں تو کیا بجٹ میں انہیں 12 فیصد کی حصہ داری نہیں ملنی چاہئے۔ حکومت کے ترقیاتی، تعمیری فلاحی منصوبوں میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے حصہ داری ملنی چاہئے یا کم از کم نصف 6 فیصد حصہ داری ملنی چاہئے۔ مگر حکومت تشکیل تلنگانہ ریاست کے وقت جو نظریہ پیش کیا تھا اس کے برعکس کام کررہی ہے۔ چیف منسٹر جس طرح دوسرے طبقات کی ترقی فلاح و بہبود کے لئے منصوبے تیار کررہے ہیں اسی طرح مسلمانوں کی ترقی کے لئے کوئی منصوبے تیار نہیں کررہے ہیں جس سے مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی قیادت کے دعویدار ہیں وہ حکومت سے اپنے مسائل کے علاوہ دیگر امور پر گفتگو نہیں کرتے۔ حکومت ٹی آر ایس کے مسلم قائدین کو گھر کی مرغی دال برابر سمجھتے ہیں۔ ناہی کبھی ان سے ملاقات کرتے اور ناہی ان سے کبھی مسلمانوں کے مسائل کی یکسوئی کے لئے کوئی تجاویز وصول کرتے ہیں۔ حکومت یہی چاہتی ہے کہ مسلمان صرف ڈرائیور رہے۔ سیکل پر پھر کر کاروبار کریں یا ہوٹلوں میں کام کریں یا پھر آٹو چلانے کے علاوہ چھوٹے پان ڈبہ کا کاروبار کریں۔ مسلمانوں میں بھی کئی تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ڈگریاں رکھنے کے باوجود نہ انہیں کوئی روزگار ملا ہے نہ ہی اپنے دم پر کاروبار کرنے کے لئے کوئی قرض ملتا ہے اور نہ ہی حکومت کی کوئی اسکیم سے انہیں سبسیڈی پر قرض فراہم کرنے کے علاوہ کاروبار شروع کرنے کے لئے کوئی مدد کی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام شعبوں میں مسلمانوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یہ رجحان سنہرے تلنگانہ کے لئے بہتر نہیں ہے۔