آؤ میدان میں غازیوں کی طرح

,

   

پانچ ریاستوں کے چناؤ … مودی امیج خطرہ میں
خون مسلم سستا … مسلم قیادت بے اثر کیوں؟

رشیدالدین
’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ کا خطرہ فی الوقت ٹل گیا ہے لیکن سر پر تلوار بہرحال لٹکی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے اختتام پر اپوزیشن نے راحت کی سانس لی ہے۔ اندیشہ تھا کہ مودی حکومت لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات کے لئے دستور میں ترمیم کرے گی ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی جانب سے ’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ کے حق میں ماحول سازگار بنانے کی کوشش کی گئی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی حکومت نے لمحہ آخر میں دستوری ترمیم کا ارادہ ترک کردیا اور اپنی ساکھ بچانے کیلئے خواتین تحفظات بل پیش کردیا گیا۔ خواتین کو قانون ساز اداروں میں 33 فیصد تحفظات میں مودی حکومت اگر سنجیدہ ہوتی تو تحفظات پر فوری عمل کیا جاتا۔ محض ضابطہ کی تکمیل اور رسوائی سے بچنے کیلئے دونوں ایوانوں میں تحفظات بل منظور کیا گیا لیکن عمل آوری کے لئے تقریباً 10 سال درکار ہوں گے۔ مودی حکومت نے جب محسوس کیا کہ ملک بھر میں بی جے پی کی حالت کمزور ہے ، لہذا ایک ساتھ چناؤ کا ارادہ ترک کردیا گیا ۔ خطرہ جیسے ہی ختم ہوا پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی مہم کا آغاز ہوگیا۔ بی جے پی اور کانگریس کے لئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ منی جنرل الیکشن کی طرح ہیں۔ بی جے پی کیلئے مدھیہ پردیش میں اقتدار کو برقرار رکھنا چیلنج سے کم نہیں جبکہ کانگریس اپنی زیر اقتدار ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومت کی برقراری اور مدھیہ پردیش سے بی جے پی کا اقتدار چھیننے کے فراق میں ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق کانگریس کے لئے تلنگانہ ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ماحول سازگار ہے جبکہ راجستھان میں کانٹے کی ٹکر ہے ۔ ملکارجن کھرگے کانگریس کے لئے نیک شگون ثابت ہوئے۔ صدارت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی کرناٹک اور ہماچل پردیش میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا۔ پانچ ریاستوں کے مجوزہ چناؤ کا اثر آئندہ لوک سبھا انتخابات پر پڑے گا اور اپوزیشن اتحاد INDIA سے بی جے پی خوفزدہ ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت اور بی جے پی کا بحران کانگریس کے حق میں نعمت ثابت ہوسکتا ہے۔ بحران اور امکانی خطرہ کو دیکھتے ہوئے نریندر مودی ، امیت شاہ اور جے پی نڈا نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان پر حکومت واپسی کا بھروسہ ختم ہوگیا ، لہذا مخالف شیوراج سنگھ قائدین کو انتخابی میدان میں اُتارا گیا۔ بعض مرکزی وزراء کو اسمبلی امیدوار بنایا گیا تاکہ شکست کو جیت میں تبدیل کیا جائے۔ سروے رپورٹس کے مطابق مدھیہ پردیش بی جے پی کے ہاتھوں سے پھسل کر کانگریس کے ہاتھ میں جاسکتا ہے ۔ کانگریس اگر مدھیہ پردیش ، تلنگانہ اور چھتیس گڑھ میں کامیابی کے علاوہ راجستھان کو بچاتی ہے تو 2024 عام چناؤ کے لئے اچھے دنوں کا آغاز ہوگا۔ تلنگانہ میں بی آر ایس کی 10 سالہ حکومت اور کے سی آر جیسے شاطر سیاستداں سے مقابلہ کانگریس کے لئے آسان نہیں ہے لیکن حکومت کے خلاف ناراضگی کو لہر میں تبدیل کرنے ریونت ریڈی جان توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آنجہانی وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے بعد ریونت ریڈی کی شکل میں کانگریس کو عوامی مقبول قائد ملا ہے۔ ایک طرف منی جنرل الیکشن کی سرگرمیاں جاری ہیں تو دوسری طرف نفرت کے سوداگر مسلمانوں کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ جارحانہ فرقہ پرست عناصر اپنی حرکات کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں تاکہ بی جے پی کے حق میں ہندو ووٹ بینک مستحکم کیا جاسکے۔ بی جے پی نے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی شکل میں سماج کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے والے عناصر کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ وقفہ وقفہ سے ماب لنچنگ کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ نفرت کی یہ لہر اب دارالحکومت دہلی تک پہنچ گئی جہاں ذہنی طور پر معذور مسلم نوجوان کو سرقہ کے الزام میں مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔ چوری بھی آخر کس چیز کی ؟ مندر سے پرساد جو ایک موز تھا اسے ایک بھوکے شخص نے کھالیا تو اسے موت کی سزا دی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد اسرار نامی نوجوان علاقہ کیلئے نیا نہیں تھا۔ ذہنی معذوری کے نتیجہ میں وہ ہر ایک کیلئے ہمدردی کا باعث تھا اور محلہ میں لوگوں کے مختلف کام انجام دیتا تھا ۔ اس غریب کو جب بھوک نے ستایا تو وہ مندر پہنچا اور وہاں رکھا ہوا ایک موز کھا گیا ۔ محمد اسرار کی یہ غلطی فرقہ پرستوں کیلئے ایک بہانہ بن گئی ، حالانکہ انسانی نقطہ نظر سے نوجوان کا کوئی جرم نہیں ہے ۔ قصور اس نوجوان کا موز کھانا نہیں تھا بلکہ اس کا مسلمان ہونا جرم بن گیا اور جنونی نفرت کے سوداگروں نے اسے مار مار کر ہلاک کردیا ۔ یہ عناصر اچھی طرح جانتے ہیں کہ مودی کے اقتدار میں مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جرم کی سزا نہیں ہے۔ ملک بھر میں مسلمانوں کے خون کے پیاسوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ مسلمان کا خون پانی سے بھی سستا ہوچکا ہے۔ گزشتہ 9 برسوں میں مسلمانوں کے خلاف پیش آئے ماب لنچنگ اور دوسرے واقعات کی نریندر مودی نے مذمت تک نہیں کی۔ کارروائی توکجا ایسے عناصر کو انعام و اکرام سے نواز کر ہمت افزائی کی جارہی ہے ۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی رکن نے بی ایس پی رکن دانش علی کو بازاری زبان میں گالیاں دیں لیکن آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ مودی اور امیت شاہ نے افسوس کا اظہار تک نہیں کیا۔ اگر یہی پارلیمنٹ کے باہر کہا جاتا تو مذاہب کے درمیان نفرت پھیلانے کا مقدمہ درج کیا جاسکتا تھا ۔ بی جے پی رکن کی نفرت کا مقابلہ کرنے کے بجائے دانش علی نے آنسو بہاتے ہوئے بزدلی اور کمزوری کا ثبوت دیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں ہی بی جے پی رکن کا منہ توڑ جواب دے کر وہ غیرت ایمانی اور حمیت ملی کا ثبوت دے سکتے تھے۔ یہ وقت آنسو بہانے کا نہیں بلکہ ظالم کا ہاتھ پکڑنے اور اسے سبق سکھانے کا ہے تاکہ دوبارہ کسی کی ہمت نہ ہو۔ گالیاں سن کر اور توہین برداشت کرنے سے نئی نسل کے حوصلے پست ہوجائیں گے ۔ مسلمانوں کا نمائندہ ایوان پارلیمنٹ میں ظالم کا مقابلہ نہ کرسکے تو میدان میں کیا سامنا کرپائیں گے۔ رونے دھونے سے ہمدردی تو مل سکتی ہے لیکن ایسی ہمدردی کس کام کی جو قوم کو بزدل بنادے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں بی جے پی رکن کی جگہ کوئی مسلم رکن کسی ہندو کے خلاف اس طرح کے ریمارکس کرتا تو اسے ایوان سے معطل کردیا جاتا۔ عام آدمی پارٹی کے دو ارکان ایوان میں ہنگامہ آرائی پر معطلی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ 9 برسوں میں مسلمانوں کے خلاف کسی بھی واقعہ کے خاطیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ نفرت کی یہ آگ آخر کب بجھے گی۔ جولائی میں جئے پور ممبئی ٹرین میں آر اے ایف کانسٹبل چیتن سنگھ نے تین مسلم نوجوانوں کو گولی مارکر ہلاک کردیا ، اس نے اپنے سینئر تلک رام مینا کو بھی گولی ماردی ۔ چیتن سنگھ ہمیشہ ہی مخالف مسلم سرگرمیوں کیلئے شہرت رکھتا ہے اور اس نے دو بوگیوں میں داڑھی اور ٹوپی سے مسلمانوں کی شناخت کرتے ہوئے گولی ماردی۔ چیتن سنگھ کو سزا کے بجائے دماغی توازن بگڑنے کا بہانا بناکر بچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر کوئی مسلم کانسٹبل یہ حرکت کرتا تو اسی وقت اس کا انکاؤنٹر کردیا جاتا۔ نفرت کا ماحول اترپردیش میں اسکولوں تک پہنچ چکا ہے۔ مظفر نگر کے اسکول میں نصابی تعلیم کے بجائے ایک ٹیچر ترپتا تیاگی نے نفرت کی تعلیم دیتے ہوئے ایک مسلم طالب علم کو ہندو طلبہ سے مار کھلائے۔ یہ واقعہ سوشیل میڈیا میں وائرل ہوا لیکن یوگی حکومت ٹیچر کو بچا رہی ہے ۔ آخرکار سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی جس نے آئی پی ایس عہدیدار سے تحقیقات کی ہدایت دی اور یہ واقعہ ملک کی شرمساری کا باعث ہے۔ موجودہ حالات میں مسلم قیادتوں کی کمزوری اور بے حسی مسلمانوں کے لئے لمحہ فکر بن چکی ہے ۔ ملک میں مسلم سیاسی جماعتیں اپنی شناخت کھوتی جارہی ہے۔ آسام ، کیرالا ، دہلی اور حیدرآباد میں مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں موجود ہیں لیکن وہ حکومت وقت پر اثر انداز ہونے میں ناکام ہیں۔ مسلم مجلس مشاورت کا وجود ختم ہوچکا ہے اور وہ گمنامی کا شکار ہوچکی ہے۔ دیگر پارٹیوں کے سرکردہ قائدین اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔ کیرالا میں مسلم لیگ حکومت سازی میں اہم رول ادا کرتی رہی ہے لیکن آج نوجوان نسل مسلم لیگ اور ان کے قائدین کے ناموں سے واقف تک نہیں۔آسام میں بدرالدین اجمل کی پارٹی مقامی مسائل میں الجھ کر رہ گئی ہے اور بی جے پی حکومت سے خود کو بچانے کی فراق میں ہے۔ حیدرآباد کا معاملہ تو ہر ایک کے سامنے روشن ہے ۔ مسلم قیادت کے طور پر علی میاں کے بعد ملک گیر سطح پر مقبولیت رکھنے والی کوئی قیادت ابھر نہیں سکی۔ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے علاوہ غلبہ اسلام کیلئے کردار سازی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ جماعتیں اور ادارے اپنے مقررہ اجتماعات اور جلسوں تک محدود ہوچکے ہیں۔ جب تک مسلم قیادت کا وزن پیدا نہیں ہوگا ، اس وقت تک کوئی بھی قومی اور سیاسی پارٹی انہیں اہمیت نہیں دے گی۔ حفیظ میرٹھی نے کیا خوب مشورہ دیا ہے ؎
سمٹے بیٹھے ہو کیوں بزدلوں کی طرح
آؤ میدان میں غازیوں کی طرح