آئندہ انتخابات اور انڈیا اتحاد

   

تمہاری بات کا مجھ کو یقین ہے لیکن
مرے کہے کا تمہیں اعتبار ہو کہ نہ ہو
ہندوستان بھر میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں در پردہ اپنی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں۔ بی جے پی نے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں تین ریاستوں میں اقتدار حاصل کیا تھا اور تین ریاستوں میں چیف منسٹروں کے تقرر کے ذریعہ ہی پارٹی نے اپنی انتخابی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی نے تینوں ہی ریاستوں میں نئے چہروں کو وزارت اعلی کی ذمہ داری سونپتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ سماج کے مختلف طبقات کو پارٹی سے قریب کرنے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جو طبقات اب تک پارٹی سے دور رہے تھے ان کو بھی پارٹی سے قریب کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ایسے میں سارے ملک میں بی جے پی کو چیلنج دینے انڈیا اتحاد کا استحکام ضروری ہے ۔ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے پیش نظر انڈیا اتحاد میں تفصیلات کو قطعیت دینے کی سمت کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی تھی ۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور آئندہ انتخابات پارلیمنٹ کیلئے ہی ہونے ہیں تو ایسے میں سبھی جماعتوں کی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ ملک کے عوام کیلئے ضروری ہے کہ انڈیا اتحاد بی جے پی کا ایک مستحکم متبادل بن کر ابھرے ۔ عوام میں یہ بھروسہ اور یقین پیدا کیا جائے کہ انڈیا اتحاد بی جے پی کا بہتر متبادل ثابت ہوسکتا ہے ۔ کچھ وقت تک اس اتحاد کے اجلاس منعقد نہیں ہوپائے تھے جن کی وجہ سے کچھ گوشوں سے اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش بھی کی گئی تھی ۔ یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ مختلف جماعتوں اور قائدین کو ایک دوسرے سے دور کرنے اور متنفر کرنے کیلئے منصوبے بنائے جار ہے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ انڈیا اتحاد اپنے اتحاد کو برقرار رکھے اور اسے حتمی شکل دینے کیلئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ ایک دوسرے پر یقین اور بھروسہ کرتے ہوئے پیشرفت کی جائے ۔ جو اختلافی اور نزاعی مسائل ہیںان پر پہلے توجہ دیتے ہوئے ان کی یکسوئی کیلئے آگے بڑھا جائے اور نشستوں کی تقسیم کو جتنا ممکن ہوسکے جلدی قطعیت بھی دی جانی چاہئے ۔
انڈیا اتحاد کے ابتدائی تین اجلاس جو منعقد ہوئے تھے وہ بہت کامیاب رہے تھے ۔ ایک ماحول پیدا ہو رہا تھا ۔ ملک کے عوام بھی اس جانب متوجہ ہو رہے تھے ۔ پانچ ریاستوں کے انتخابی عمل کی وجہ سے یہ ماحول قدرے تھم سا گیا ہے ۔ کچھ قائدین میں اندیشے بھی ضرور پیدا ہوئے ہیں لیکن اب بھی وقت ہے اور درست وقت ہے کہ تمام مسائل کو حل کیا جائے ۔ ایک دوسرے کی تشویش کو ہمدردی سے سمجھا جائے اور اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ سیاسی انا کو ترک کرتے ہوئے آپسی بھائی چارہ کو زیادہ توجہ کے ساتھ فروغ دینا ضروری ہے ۔ کئی جماعتیں اس اتحاد میں ایسی بھی ہیں جن کے ریاستی مفادات اور مرکزی مفادات اور ان کے موقف میں تضاد ہے ۔ یہ ان جماعتوں کی سیاسی مجبوری بھی ہوسکتی ہے ۔ اس کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے تمام جماعتوں کو لچکدار موقف اختیار کرنا ضروری ہے ۔ کوئی بھی ضدی یا ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کرتا ہے تو یہ اس کیلئے ہی مسائل کا سبب نہیں بنے گا بلکہ سارے انڈیا اتحاد کو اس سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ بی جے پی نے اپنی دوسری معیاد کے آخری ایام میں جس طرح کا آمرانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے اس سے تمام جماعتوں کو سبق لینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بی جے پی کو شکست دینے کی اہمیت کا اندازہ کرنا ہوگا ۔اپنے اپنے شخصی یا ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ جمہوری عمل کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے ہر جماعت کو اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا ۔
کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دینے والی بی جے پی نے اب عملا اپوزیشن مکت پارلیمنٹ کو یقینی بنانے کے اقدامات شروع کردئے ہیں۔ تقریبا دیڑھ سو ارکان پارلیمنٹ کو دونوں ہی ایوانوں سے معطل کردیا گیا ہے اور اپوزیشن کے غیاب میں قانون سازی کی جا رہی ہے ۔ یہ جمہوری اصولوں کے مغائر اقدامات ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کو اپنی طاقت میں اضافہ کرنے اور ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے اور مزید مستحکم کرنے کیلئے کمرکسنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انڈیا اتحاد مستحکم ہو۔ آئندہ انتخابات اس اتحاد کیلئے کرو یا مرو والی کیفیت کے حامل ہیں اور اس کو اتحاد کی تمام جماعتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔