آبائی گھر تباہ کردیاگیا۔ شمال مشرقی دہلی کے کشیدہ اور پریشان کن حالات میں ایک لڑکا ہوا پیدا

,

   

مارچ4کی ابتدائی ساعتوں میں‘ اس کی بیوی 24سالہ شابیہ بانو کو مصطفےٰ آباد کے عیدگاہ ریلیف کیمپ کے لیبر روم میں لے جایاگیاتھا‘ اور پھر قریب کے اسپتال منتقل کیاگیا جہاں پر ایک صحت مند بیٹے کو اس نے جنم دیا۔

نئی دہلی۔شیو وہار میں اپنے گھر کی تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد جمعرات کے روززلف تراش 29سالہ محمد ارشد خالی ہاتھ ریلیف کیمپ واپس لوٹا تھا۔

حال میں اپنے نوزائید بچے کے لئے خریدا ہوئی الماری جو ٹوٹ گئی تھی‘ کپڑوں کے جوڑے جو تباہ ہوگئے تھے‘ خالی برتین اور ٹوٹا ہوا شیشہ اس میں سے کچھ بھی چیز وہ اپنے ساتھ لے کر نہیں لوٹاتھا۔

ارشد نے کہاکہ ”حالانکہ ہم نے فیصلہ کیاتھا جب لڑکا یالڑکی ہوگی تو وہ ہمارے ایک سالہ بچے کے کپڑے پہنیں گے‘ اب بھی حالات نہیں ہونے کے باوجود دو جوڑے خرید کر لائے ہیں۔

فبروری 25کے روز جو ہجوم ہماری گلی میں داخل ہوا تو ہمارے پاس کچھ بھی اٹھانے کا وقت نہیں تھا۔ ہمارے پاس اپنی جان بچانے کے لئے بہت ہی کم وقت تھا“۔

مارچ4کی ابتدائی ساعتوں میں‘ اس کی بیوی 24سالہ شابیہ بانو کو مصطفےٰ آباد کے عیدگاہ ریلیف کیمپ کے لیبر روم میں لے جایاگیاتھا‘ اور پھر قریب کے اسپتال منتقل کیاگیا جہاں پر ایک صحت مند بیٹے کو اس نے جنم دیا۔

جب لڑکا پیدا ہوا تو وہ رونے لگی او رکہاکہ ’ہماری قسمت ہی خراب ہے‘۔

ارشد نے کہاکہ ”ہم اپنے دوسرے بچے کے لئے کافی پرجوش تھے مگر ہم نے تصور بھی نہیں کیاتھا کہ وہ ایسی حالت میں پیدا ہوگا‘ جب اس کے والدین اپنا ذاتی گھر رہنے کے باوجود ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہیں“۔

نومولود کا نام والدین نے محمد عزیر رکھا ہے۔ارشد نے کہاکہ میرے لئے یہ سکون کی بات ہے کہ صوبیا اورعزیر ابھی تک اسپتال سے ڈسچارج نہیں کئے گئے ہیں کیونکہ اسکو کچھ وقت ملا ہے تاکہ وہ فیصلہ کرسکے کہ انہیں لے کر کہاں جائے۔

ارشد نے کہاکہ ”یہاں پر بارش ہے اور کیمپ میں پانی بھرا ہوا ہے‘ میٹرس بھی بھیگ گئے ہیں اور یقینا نو مولود بچے اور اس کی ماں کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے۔

ہم گھر نہیں جائیں گے‘ ہم جانا بھی نہیں چاہتے ہیں کیونکہ ہم ڈرے ہوئے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں انہیں کچھ دن کیمپ میں ہی گذارنا نہ پڑے“۔

جمعرات کے روز ویشالی سالون میں کام کرنے والے ارشد اپنے گھرگئے تھے تاکہ اس کو مقفل کرسکیں۔

ارشد نے کہاکہ ”میں نے نقصان دیکھا ہے‘ میں کوئی چیز اپنے ساتھ لے کر نہیں آیا کیونکہ معاوضہ کے لئے مجھے درخواست دینی ہے اور اگر وہ میرے دعوؤں پر کچھ مانگتے ہیں تو وہاں پر موجود ہونا چاہئے“۔

انہوں نے فبروری25کی اس رات کو یاد کیاجب ایک ہجوم شیو وہار کی گلی نمبر10میں لاٹھیوں اور سلاخوں کے ساتھ داخل ہوا تھا۔

فوری طور پر وہ حرکت میں آیا اور اپنی بہن کو سب سے پہلے چاند باغ چھوڑ کر آیا پھر اس نے اپنے حاملہ عورت اور اس کے ساتھ ایک سالہ بیٹے اویس اور پھر والدین کو چھوڑ کر آیاتھا۔

ارشد نے کہاکہ ”ایک سال قبل میں نے مسلم اکثریت والے علاقے چاند باغ کے اپنے گھر سے شیو وہار مشترکہ آبادی والے میں منتقلی کے زوردیاتھا

کیونکہ یہاں شیو وہار میں صفائی بہت ہے او رگلیاں بھی کشادہ ہیں۔ میں نے بھی سونچا بھی نہیں تھا کہ ہمیں کوئی خطرہ ہوگا۔ سکیورٹی فراہم کرنے پر ہی میں وہاں واپس لوٹوں گا“