خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے
ملک کے نئے نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب آج عمل میں آئے گا ۔ سابق نائب صدر مسٹر جگدیپ دھنکڑ کے اچانک استعفی کے بعد اس انتخاب کی ضرورت لاحق ہوئی ہے ۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد نے گورنر مہاراشٹرا مسٹر سی پی رادھا کرشنن کو نائب صدارتی عہدہ کیلئے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ کانگریس زیر قیادت انڈیا اتحاد نے سابق سپریم کورٹ جج ‘ جسٹس بی سدرشن ریڈی کو اپنا امیدوار بناتے ہوئے مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ہی ایوانوں میں جو عددی طاقت ہے وہ این ڈی اے اتحاد کے حق میں دکھائی دیتی ہے تاہم انڈیا اتحاد نے جمہوری اصولوںکو فروغ دینے اور حکومت کو بآسانی کامیابی سے روکنے کیلئے مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے ۔ دونوں ہی اتحادوں کی جانب سے اپنے اپنے اتحادی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کی تائید حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ رابطے کئے جا رہ ہیں۔ کسی بھی اتحاد میں جو جماعتیں شامل نہیں ہیں انہیں رجھانے کی کوششیں بھی ہونے لگی ہیں۔ جو جماعتیں این ڈی اے یا پھر انڈیا اتحاد کا حصہ نہیں ہیں ان کی تائید اس انتخاب میں اہمیت کی حامل ہے ۔ تاہم جمہوری عمل کے ذریعہ انتخابات میں حصہ لے کر قانون ساز اداروں تک پہونچنے والی جماعتوں کی جانب سے بھی اس انتخاب سے دوری کا فیصلہ کیا جا رہا ہے جو جمہوری اصولوں کے مغائر دکھائی دیتا ہے ۔ اوڈیشہ کی سابق برسر اقتدار جماعت بیجو جنتادل نے نائب صدارتی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔ پارٹی کا کہنا تھا کہ وہ مرکزی سطح پر انڈیا اتحاد اور این ڈی اے اتحاد دونوں ہی سے فاصلہ بنائے رکھنا چاہتی ہے اسی وجہ سے رائے دہی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اسی طرح تلنگانہ کی اپوزیشن جماعت بھارت راشٹرا سمیتی نے بھی نائب صدارتی انتخاب کیلئے رائے دہی میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا ہے ۔ بی آر ایس بھی یہی تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ قومی سطح پر بی جے پی اور کانگریس کی قیادت والے اتحادوں سے دوری بنائے رکھنا چاہتی ہے ۔ یہ ان جماعتوں کی اپنی اپنی پالیسی کے مطابق فیصلے ہیں تاہم ان سے اجتناب کیا جاسکتا تھا ۔
نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب کسی ایک جماعت تک محدود نہیں ہے ۔ یہ ملک کے ایک باوقار دستوری عہدہ کیلئے انتخاب ہے ۔ اس میں کسی جماعت کی کامیابی کی بات نہیں ہے بلکہ جمہوری عمل کا حصہ بننے کی بات ہے ۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی سطح پر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور جمہوری عمل کا حصہ بن کر ہی وہ اقتدار کے زینے طئے کرتی ہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ ضرور مسلمہ ہیں تاہم ان کی بنیاد پر ایک باوقار دستوری عہدہ کیلئے مقابلہ سے گریز کرنا جمہوری عمل سے دوری کو ظاہر کرتا ہے ۔ این ڈی اے کے امیدوار سی پی ٹھاکر مہاراشٹرا کے گورنر ہیں اور وہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے طویل وقت سے وابستہ رہے ہیں۔ ان سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات واجبی ہوسکتے ہیں۔ تاہم جہاں تک اپوزیشن کے امیدوار جسٹس بی سدرشن ریڈی کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے کبھی بھی وابستہ نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے خود بھی واضح کیا ہے کہ وہ کسی جماعت کے رکن نہیں ہیں۔ وہ قانونی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ متحدہ آندھرا پردیش کے ہائیکورٹ اور ملک کی سپریم کورٹ میں بحیثیت جج خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت اور دستور کے تحفظ کیلئے نائب صدارتی انتخاب لڑنے کیلئے تیار ہوئے ہیں ۔ ایسے میں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوتے ہوئے سیاسی جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ اپنے ووٹ کا استعمال کرسکتے تھے اور جمہوری عمل کو تقویت دینے میں اپنا حصہ ادا کرسکتے تھے ۔
آج ہونے والے نائب صدارتی انتخاب کا نتیجہ چاہے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کے انڈیا اتحاد نے جمہوری عمل کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے اور مقابلہ کرتے ہوئے جمہوری عمل کے تئیں اپنے ایقان کا اظہار بھی کیا ہے ۔ عددی طاقت کے بل پر کامیابی یا ناکامی جمہوری عمل کا ہی حصہ ہے تاہم اس بنیاد پر انتخابی عمل سے دوری کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ جو جماعتیں اور ارکان پارلیمنٹ ملک میں دستور اور جمہوریت کی بقاء چاہتے ہیں اور اسے تقویت دینا چاہتے ہیں انہیں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوتے ہوئے اپنی ضمیر کی آواز پر ملک کے آئندہ نائب صدر جمہوریہ کا انتخاب کرنا چاہئے ۔