غافل نہیں میں بدلے ہوئے رنگ چمن سے
کانٹے بھی نظر میں ہیں گلِ تر بھی نظر میں
طویل انتظار کے بعد بالآخر آج وہ دن آگیا جب لوک سبھا کے انتخابی نتائج کا اعلان کیا جائیگا ۔ ملک بھر میں ووٹوں کی گنتی اور نتائج کے اعلان کیلئے تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تیاریوں کو قطعیت دیدی گئی ہے ۔ متعلقہ حکام کو بھی چوکس کردیا گیا ہے اور سارے ملک میں تجسس اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ حالانکہ یکم جون کو ساتویں اور آخری مرحلہ میں ووٹ ڈالے جانے کے بعد ایگزٹ پولس نے جو رائے ظاہر کی ہے اس کے مطابق بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کو توقع سے زیادہ کامیابی مل سکتی ہے ۔ تاہم سیاسی جماعتوں میں جو بے چینی کی کیفیت ہے وہ ایک الگ ہی صورتحال کی عکاسی کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی جماعت اپنی شکست کا قطعی نتائج سے قبل اعتراف نہیں کرتی اور نہ ہی کوئی بھی ایگزٹ پولس یا انتخابی سروے حقیقی نتائج کے عین مطابق ہوسکتا ہے ۔ ماضی میں بے شمار مواقع ایسے آئے ہیں جب تمام نتائج ٹی وی چینلسا ور سروے اداروںک ی جانبس ے جاری کئے گئے ایگزٹ پولس کے عین برعکس رہے تھے ۔ ہمارے ملک میں جو ماحول پیدا ہوگیا ہے وہ محض ایک رخ کو پیش کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے ۔ انتخابات کے دوران بھی محض ایک رخی پالیسی اختیار کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو غور و فکر سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ابتداء ہی سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ ملک میں بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی کسی میں بھی طاقت یا اہلیت نہیں رہ گئی ہے ۔ بی جے پی ہی اس ملک کے عوام کیلئے واحد امکان باقی رہ گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت میں کب کون اقتدار پر فائز ہوجائے اور کب کس کا اقتدار چھن جائے یہ کہا نہیں جاسکتا ۔ قطعی فیصلہ ملک کے عوام کرتے ہیں اور یہ رائے جب تک سامنے نہ آجائے کوئی بھی قیاس حقیقت کے قریب نہیں ہوسکتا ۔ ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ کچھ ایگزٹ پولس درست بھی ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم ماضی کی اور موجودہ صورتحال میں بہت واضح فرق دکھائی دیتا ہے ۔ آج انتخابی سروے اور رپورٹس بھی خریدی اور بیچی جا رہی ہیں۔ یہ عمل بھی اب تجارت بن کر رہ گیا ہے ۔
ماضی میں جس طرح سے سروے کئے جاتے تھے اور رپورٹس جاری کی جاتی تھیں تو وہ بھی کبھی غلط ثابت ہوئیں اور کبھی درست بھی ثابت ہوئیں۔ تاہم ماضی کے سروے ذمہ دار اور پیشہ ور ماہرین کی جانب سے کئے جاتے تھے ۔ ان میں جانبداری کا عنصر دکھائی نہیں دیتا تھا ۔ سروے کرنے والے افراد خود کسی نظریہ یا سوچ کے حامی یا پیرو کار نہیں ہوا کرتے تھے ۔ اگر وہ کسی نظریہ کے حامل ہوتے بھی تو وہ اپنی شخصی پسند اور رائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ اپنا کام کیا کرتے تھے ۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ نہ میڈیا ذمہ دار رہ گیا ہے اور نہ غیر جانبدار رہ گیا ہے ۔ میڈیا آزاد بھی نہیں رہ گیا ہے ۔ بلکہ اب میڈیا ‘ میڈیا نہیں رہ گیا ہے بلکہ تشہیری ہتھکنڈہ والی صنعت بن گیا ہے ۔ یہ تشہیر بھی ان کی ہو رہی ہے جو میڈیا ادارہ پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ میڈیا گھرانے بھی اب صحافیوں کے ہاتھ میں نہیں رہ گئے ہیں بلکہ صحافیوں کو بھی صنعتی گھرانوں کا ملازم بناتے ہوئے ان سے اپنے مفادات کی تکمیل کروائی جا رہی ہے ۔ جو لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر اینکرنگ کرتے ہیں وہ بھی اپنی منفعت اور وابستگی کی بنیاد پر کام کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ صحافتی اقدار اور غیر جانبداری پر اب کوئی حجت باقی نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس پر کھلے عام اور واضح انداز میں سمجھوتے کرتے ہوئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام کیا جا رہا ہے ۔ اسی میڈیا کی جانب سے نتائج سے قبل بھی عوام کے ذہنوں پر ایک سوچ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور بی جے پی کے گیت گائے گئے ۔
ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کو مرکز میں اقتدار برقرار رکھنے کا مل جائے ‘ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی اقتدار سے بیدخل ہوجائے اور کانگریس زیر قیادت انڈیا اتحاد اقتدار پر آجائے ‘ ہوسکتا ہے کہ کوئی تیسری صورتحال بھی پیدا ہوجائے ۔ یہ تمام امکانات موجود ہیں اور صورتحال کل نتائج کے بعد ہی واضح ہوسکتی ہے ۔ ملک کے عوام نے اپنی رائے ظاہر کردی ہے ۔ عوام کا فیصلہ ہر ایک پر مقدم ہے ۔ کسی ایگزٹ پول یا کسی ادارہ کے سروے کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے اور کسی ایگزٹ پول سے نتائج میل بھی کھا جائیں تو یہ محض ایک اتفاق ہوسکتا ہے ۔ عوام کے فیصلے کا خود عوام کو بے چینی سے انتظار ہے اور آج یہ انتظار ختم ہوجائے گا ۔