پہلے زمانے میں بچیوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دی جاتی تھی۔اگر وہ بیڈ یا صوفے پر بیٹھ کر پیروں کو ہلاتی تھیں تو مائیں انہیں فوراً ٹوک دیتی تھیں اور انہیں خاص تاکید کرتی تھیں کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہ کریں۔کوئی بچی جوتے پہن کر پاؤں کو گھسیٹ کر چلتی ہوئی دکھائی دیتی تو مائیں انہیں اس حرکت پر سرزنش کرتیں اور انہیں کہتی کہ اچھی بچیاں اس طرح نہیں چلا کرتیں۔ اسی طرح زور زور سے ہنسنا، چیخنے چلانے سے منع کرنے، آہستہ بولنے کی تربیت و دیگر اسی طرح کے آداب گھروں میں بچیوں کی تربیت کیلئے مائیں اُنہیں سکھاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔وہ اس مقولے پر عمل کرتی تھیں کہ ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ، لیکن دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘ یہی وجہ ہے کہ ان کی تربیت میں پروان چڑھنے والی لڑکیاں اپنی اسی بہترین تربیت کی وجہ سے مثالی لڑکیاں قرار پاتی تھیں۔ لیکن اب آداب والی تربیت کا سلسلہ تھم چکا ہے۔ ماؤں کو گھر کے کام نمٹانے، موبائل فون، شاپنگ کرنے اور ٹی وی پر وقت گزارنے سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ اس طرح بچیوں کو وقت دیں اور انہیں آداب سکھائیں، بچیاں ماؤں کے سامنے بیٹھ کر پیروں کو ہلاتی بڑوں کے سامنے چیونگم چبا کر غبارے پھلاتی اور جوتے گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں لیکن ماں اُنہیں ان حرکتوں پر ٹوکتی تک نہیں ہیں۔پہلے زمانے میں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ جب بڑے آئیں تو عزت سے کھڑے ہو جائیں، تعظیماً ان کی طرف پیر کر کے نہ بیٹھیں۔خواتین یہ سوچ لیں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا، آپ نے جہاں اپنی ماں سے کھانا پکانا سیکھا ہے، وہیں ان سے بچیوں کی تربیت کے کچھ آداب بھی پوچھ لیں تاکہ اپنی بچیوں کی تربیت آج کے ماحول میں رہ کر بھی آپ مثالی انداز میں کر پائیں۔دور حاضر میں جب کہ معاشرے میں ہر سُو غیر اسلامی ماحول نظر آتا ہے پھر جدید ٹیکنالوجی نے بھی بچوں کی اسلامی طرز پر تربیت میں مشکل پیدا کردی ہے، یوں والدین کی ذمے داریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ عصر حاضر میں بچوں کی تربیت کا پورا پورا دار و مدار والدین اور ان کے اپنے گھر کے ماحول پر منحصر ہوگیا ہے۔ خاص طور پر ماں کی ذمے داریوں میں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کیوں کہ ماں کا زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی گود کو اولین درس گاہ کہا جاتا ہے۔