آخری دو مراحل کیلئے حکمت عملی

   

میں نے چاہا تھا کہ دشمن کی تباہی پر ہنسوں
طعنہ زن مجھ پر میری شائستگی ہونے لگی
عام انتخابات 2024 کے پانچ مراحل کی رائے دہی مکمل ہوچکی ہے اور اب مزید صرف دو مراحل باقی رہ گئے ہیں۔ ان دو مراحل میں 25 مئی اور یکم جون کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ بی جے پی کی انتخابی مہم کا اگر اب تک کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ابتداء ہی سے پارٹی اور اس کے قائدین نے انتہائی منفی رویہ اختیار کیا ہے ۔ اختلافات کو ہوا دینے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی ہے ۔ کبھی انتخابی ریلی میں تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے تو کبھی ملک کے عوام ہی میںآپس میں خلیج کو بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کبھی مسلمانوں اور دلتوں و پسماندہ طبقات کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی مسلمانوں کو در انداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے کہا گیا ۔ اب مسلمانوں کو جہادی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ساری تقاریر ملک کے وزیر اعظم ہی کر رہے ہیں جو اس ملک میں صرف بی جے پی کے یا صرف ہندو برادری کے نہیں بلکہ ہر ہندوستانی کے وزیر اعظم ہیں۔ اگر خود وزیر اعظم سماج میں نراج اور بے چینی کی کیفیت پیدا کرنے کی حکمت عملی پر کام کریں تو یہ انتہائی افسوسناک امر ہے ۔ اب تک مکمل ہوئے پانچ مراحل میں بی جے پی کی انتہائی منفی حکمت عملی رہی ہے اور پارٹی نے اپنی کارکردگی پر ووٹ مانگنے کی بجائے سماج میں خوف اور بے چینی پیدا کرتے ہوئے ووٹ مانگنے کی کوشش کی ہے ۔ پانچ مراحل کے بعد اب جبکہ محض دو مراحل باقی رہ گئے ہیں اور چھٹے مرحلہ کی انتخابی مہم بھی اختتام کو پہونچنے والی ہے پارٹی نے اب رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کیلئے میڈیا اور اپنے آلہ کار عناصر کو استعمال کرنے کی حکمت عملی بنائی ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بی جے پی بہر حال انتخابات میں کامیابی حاصل کر رہی ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ملک کے عوام نے کیا کچھ فیصلہ کیا ہے اور کس کو کیا ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا وہے وہ کسی کو پتہ نہیں ہے ۔ ووٹنگ مشینوں میں یہ فیصلہ محفوظ ہے اور مابقی دو مراحل میں ابھی ووٹ ڈالے جانے باقی بھی ہیں ۔
چونکہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی وجہ سے انتخابات کے دوران نہ کوئی اوپینین پول جاری کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تمام مراحل میں رائے دہی کی تکمیل تک کسی طرح کا ایگزٹ پول جاری کیا جاسکتا ہے اس لئے بی جے پی ایک الگ انداز میں رائے دہندوں میں یہ غلط تاثر عام کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ انتخابات وہی جیت رہی ہے ۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق ایک مرحلہ کے ایگزٹ پول اس لئے جاری نہیں کئے جاتے کہ دوسرے مرحلہ میں رائے دہندوں پر اثر انداز نہ ہونے پائیں۔ سیاسی قائدین اپنے طور پر بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے اپنے امیدواروں اور عوام میں ایک طرح کا جوش و خروش برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کسی گوشہ سے اچانک ہی ایک الگ انداز میں یہ دعوی کیا جانے لگا ہے کہ بی جے پی کو ہی مرکز میں لگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل ہو رہا ہے ۔ بات کو نبھانے کیلئے ایسا انداز اختیار کیا جا رہا ہے کہ عوام اس کے اثر میں آجائیں۔ کبھی 400 پار کا نعرہ دیا جا رہا ہے تو کبھی 370 نشستوں پر کامیابی کا یقین ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ کبھی تیسری معیاد کو یقینی قرار دیا جا رہا ہے تو کبھی کوئی اور بات کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ در اصل کچھ اداروں اور اپنے آلہ کار عناصر کو استعمال کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔ اس طرح کے بیانات اور سروے کو کسی ادارہ یا فرد کی ذاتی رائے کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کا عمل جاری ہے ۔
یہ ساری حکمت عملی اور منصوبہ بندی مرکز میں بہر قیمت تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے کے مقصد سے کی جا رہی ہے تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ منفی سوچ و فکر کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی نے ساری انتخابی مہم کو زہر آلود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ رام مندر سے لے کر تحفظات تک اور مسلمانوں سے لے کر پسماندہ طبقات تک ایسے مسائل اٹھائے ہیں جو سماج میں بے چینی پیدا کرنے کا باعث رہے ہیں۔ اب جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے وہ بھی بی جے پی کی بے چینی کو ہی ظاہر کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے عوام نے واقعتا جو فیصلہ کیا ہے اس کا پتہ 4 جون کو ہی چلے گا ۔