آر ایس ایس اور طالبان کا تقابل

   

رام پنیانی

افغانستان میں اقتدار پر طالبان کی واپسی کے ساتھ ہی ماضی کی خوفناک کہانیاں یاد آگئیں اور ذہن میں طالبان کے پہلے اقتدار کے دوران کئے گئے اقدامات یکے بعد دیگرے گردش کرنے لگے۔ جب طالبان اقتدار پر تھے اُن لوگوں نے نہ صرف شرعی قوانین سے متعلق اپنے ورژن پر عمل آوری کی بلکہ خواتین کے خلاف سخت اقدامات کئے۔ بہ الفاظ دیگر خواتین کے تئیں طالبان کا رویہ انتہائی ہولناک تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ طالبان نے اپنے پہلے دور اقتدار میں مردوں کیلئے لباس اور داڑھی کے قواعد نافذ کئے۔ ان لوگوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بامیان میں گوتم بدھ کا مجسمہ بھی تباہ کردیا۔ بہرحال افغانستان طالبان کی اقتدار پر واپسی سے ہندوستانی مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے گوشے کو یہ احساس ہوا کہ طالبان کی فتح دراصل بیرونی قابضین کے خلاف اسلام کی فتح ہے۔ ان مسلمانوں نے طالبان کی فتح پر خوشی کا اظہار کیا، لیکن ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت بشمول خواتین کے گروپس خوف میں مبتلا ہوئے اور طالبان نظریہ پر شدید تنقید کی۔ اس دوران دو مسلم مقبول ترین شخصیتوں نے اپنے بیان کے ذریعہ جو طالبان سے متعلق تھے، ہلچل مچا دی۔ سب سے پہلے ہم نصیرالدین شاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ نصیرالدین شاہ نے ان لوگوں کی شدید مذمت کی جو طالبان کے اقتدار پر واپسی کو لے کر کافی خوش ہیں۔ نصیرالدین شاہ کا کہنا تھا کہ ’’ہندوستانی اسلام، دیگر علاقوں کے اسلام سے مختلف ہے اور اس میں اصلاحات اور جدیدیت کی ضرورت ہے۔ ماضی کے وحشی پن کی نہیں‘‘۔ نصیرالدین شاہ کے اس بیان پر ہندو دائیں بازو کی تنظیموں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نصیرالدین شاہ کی ستائش کی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت نے نصیرالدین شاہ کے بیان کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ نصیرالدین شاہ نے ان لوگوں کی مذمت کی جو طالبان کی تائید و ستائش کررہے تھے۔ ان مسلمانوں نے مسلم معاشرہ میں اصلاحات اور جدیدیت لانے کی بھی تائید کی لیکن تمام مسلمانوں کو ایک ہی قطار میں لاکھڑا کرنے اور ماضی کے مسلمانوں کو وحشی قرار دینے کی مخالفت کی۔ (ویسے بھی نصیرالدین شاہ کے بیان پر زیادہ تر مسلمانوں پر برہمی پائی جاتی ہے) یہ نکتہ بہت واضح ہے کہ پچھلی صدی کے دوران مسلمانوں میں جو طرز حیات رہا ہے، اس کا بادشاہت کے دور سے بھی تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم بادشاہوں کو جان بوجھ کر بدنام کیا گیا، انہیں برائی کے طور پر پیش کیا گیا۔ قرون وسطیٰ کے دوران ہندوستان میں باطنی سطح پر بہت زیادہ ترقی دیکھی گئی۔ وہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی۔ اسی دور میں بھکتی اور صوفی ازم کو غیرمعمولی فروغ حاصل ہوا۔ مذاہب اور اخلاقیات کا بہت زیادہ زور چلا اور ان کے ماننے والے بھی کثیر تعداد میں تھے۔ یہ تو نصیرالدین شاہ کے بارے میں ہمارے خیالات ہیں، دوسری شخصیت جس نے اپنے بیان کے ذریعہ ہلچل مچائی وہ جاوید اختر ہیں۔ جاوید اختر وقت بہ وقت مسلم بنیاد پرستی کے خلاف بیانات جاری کرنے یا اظہار خیال کرنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے راجیہ سبھا میں وندے ماترم کہا تھا اور وندے ماترم کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف بیان دیا تھا۔ جاوید اختر کا ہمیشہ سے یہی کہنا ہے کہ انسانوں کو چاہئے کہ وہ ان مذاہب کو اپنے درمیان رکاوٹ بننے نہ دیں۔ جاوید اختر نے مذہب اور عقیدے پر مبنی سیاست کی مخالفت کرتے ہوئے مذہبی اجارہ داری کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے طالبان کا تقابل ہندوستان میں سرگرم اور بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس سے کیا۔ جیسے ہی جاوید اختر نے طالبان کا آر ایس ایس سے تقابل کیا، ایک طوفان برپا ہوگیا۔ شیوسینا کے ترجمان ’’سامنا‘‘ نے آر ایس ایس کا دفاع کیا اور بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے دھمکی دی کہ اب سے جاوید اختر کی تمام فلموں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جاوید اختر نے طالبان کا آر ایس ایس سے جو تقابل کیا، اس وقت ان کے ذہن میں کیا تھا؟ پچھلے چند دہوں سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں ہندو دائیں بازو تنظیموں کی سیاست کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال بی جے پی ہے جو مرکز میں برسراقتدار ہے۔ ہندو قوم پرستوں کے اثر و رسوخ میں بھی بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گائے کے گوشت کے نام پر ہجومی تشدد، یونیورسٹیز میں طلباء پر حملوں (کنہیا کمار، روہت ویمولا) اور سی اے اے ۔ این آر سی جیسے اقدامات کے ذریعہ مسلم اقلیتوں پر ظلم و جبر ڈھانے کے واقعات اس کی مثالیں ہیں۔ مسلمانوں کو ستانے اور انہیں ظلم و جبر کا نشانہ بنانے کیلئے لو جہاد کا ایک اور بہانہ تلاش کیا گیا (شمبھو لال ریگر کا افرازل کو قتل کرنا)۔ لو جہاد جیسے موضوعات کو منظر عام پر لاکر مسلم طبقہ کو ستانے کا مقصد ایک ایسا ماحول پیدا کرنا تھا، جس کے نتیجہ میں مسلم معاشرہ یہ محسوس کرنے لگے کہ انہیں حاشیہ پر لادیا گیا ہے یا دیوار سے لگا دیا گیا۔ دوسری طرف عیسائی پیسٹر اسٹین اور ان کے کمسن بچوں کے بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے دارا سنگھ کے ہاتھوں قتل اور کندھامل تشدد کے ذریعہ عیسائیوں کو بھی ستایا گیا اور ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے، ان تمام واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوتوا کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ ہندوتوا میں ایسی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ بہرحال کوئی بھی تسلیم کرسکتا ہے کہ آر ایس ایس ان تمام واقعات میں راست طور پر ملوث نہیں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آر ایس ایس کے نظریہ ہندو قوم پرستی اور مذہبی اقلیتوں پر ظلم ڈھانے سے متعلق یا انہیں ہر لحاظ سے ستانے سے متعلق ایجنڈہ کام کررہا ہے۔ آر ایس ایس نے ہی بی جے پی، اے بی وی پی، وی ایچ پی، ون واسی کلیان آشرم اور ایسے دوسرے کئی ادارے قائم کئے جو اس کے نظریاتی جسم کا ایک حصہ ہے تاہم قانونی طور پر وہ مختلف ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ناتھو رام گوڈسے سے اس طرح کی حرکتوں کا برسرعام آغاز ہوتا ہے۔ گوڈسے کو آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں تربیت فراہم کی گئی تھی، جب بھی کوئی سنگین جرم کرتا ہے تو آر ایس ایس فوری طور پر یہ دعویٰ کردیتی ہے کہ جرم میں ملوث عناصر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ’’پنج جنیہ‘‘ میں شائع ایک آرٹیکل ہے۔ اس آرٹیکل میں انفوسس جیسی کمپنی پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی گئی کہ وہ ہندوستانی معیشت کو غیرمستحکم کرنے کیلئے رچی گئی سازش کا ایک حصہ ہے۔ اس کے فوری بعد آر ایس ایس حرکت میں آئی اور یہ وضاحت کردی کہ ’’پنچ جنیہ‘‘ ایک آزاد ادارہ ہے، اس کیلئے آر ایس ایس کو ذمہ دار قرار نہ دیا جائے۔ اب چلتے ہیں جاوید اختر کے اُس بیان کی طرف جس میں انہوں نے آر ایس ایس کا تعلق طالبان سے کیا ہے۔ جاوید اختر اس بیان کے تعلق سے درست ہیں، کیونکہ انہوں نے کہا کہ دونوں تنظیموں کے مقاصد یکساں ہیں۔ مثال کے طور پر طالبان افغانستان کو امارت اسلامیہ بنانے کے خواہاں ہیں (اب تو ان لوگوں نے افغانستان کو ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کا نام دے دیا ہے۔) جبکہ آر ایس ایس ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے۔ اسی طرح آر ایس ایس یہ بھی کہتی ہے کہ سرزمین ہند پر رہنے والے تمام ہندو ہیں۔ اس طرح وہ دوسرے مذہبی شناختوں کو ہندوازم میں ضم کررہی ہے۔ طالبان اور آر ایس ایس میں ایک اور مشترکہ عنصر یہ ہے کہ دونوں تنظیمیں مردوں کی ہیں، یعنی ان تنظیموں میں خواتین کی حیثیت نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی مقام ہے۔ دونوں تنظیمیں اپنے طور پر اسلام اور ہندوازم کی تشریح کرتی ہیں۔
جہاں تک دونوں کے طریقہ کار کا سوال ہے، طالبان اور آر ایس ایس میں کوئی یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ طالبان جس وقت اقتدار پر تھے، اُن لوگوں نے ظلم و جبر کی حد کردی تھی۔ طالبان نے اپنے پالیسی سازوں کی طئے کردہ پالیسیوں پر سختی سے عمل آوری کی اور ان کی پالیسیوں کا عوام نے سڑکوں پر خمیازہ بھگتا۔ طالبان کے بارے میں بلاجھجک یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے سڑکوں پر اپنی پالیسیاں نافذ کیں اور ان پالیسیوں پر عمل آوری کو یقینی بنایا۔ دوسری طرف آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جس کی ایک مخصوص ساخت ہے جس میں کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا شخص جو لاٹھی یا بندوق رکھتا ہے، وہ آر ایس ایس کا ممبر نہیں۔ آر ایس ایس کے نظریات کے لحاظ سے اس کے کارکن نچلی سطح سے اپنی پالیسیوں اور نظریات پر عمل آوری کرواتے ہیں اور ان کے جو کارکن ہوتے ہیں، انہیں سب سے پہلے متحرک کیا جاتا ہے اور ہندو قوم پرستی سے متعلق نظریہ کی جو باقاعدہ زنجیر ہے، اگرچہ اسے غیررسمی زنجیر قرار دیا جاتا ہے، تاہم وہ تشدد سے جڑی ہوتی ہے۔ پچھلے صدی کے دوران کئی ملکوں میں بنیاد پرستی اور فرقہ پرستی میں اضافہ ہوا ہے اور زیادہ تر انگریزوں کے مختلف ملکوں سے جانے کے بعد ایسا دیکھا گیا۔ جزوی طور پر سامراجی تسلط کے زیراثر ملکوں میں بنیاد پرستی اور فرقہ پرستی کا زور نظر آیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا نے پہلی بنیاد پرستی امریکہ میں عیسائی بنیاد پرستی کی شکل میں دیکھی جب خواتین اور آفریقی امریکی 1920ء کے دوران سماجی رتبہ حاصل کرنے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ دراصل وہاں پائی جانے والی سماجی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کررہے تھے۔ مغربی ایشیا میں انگریزوں کے اقتدار یا حکمرانی نے اُن لوگوں کی بقاء کو یقینی بنایا جو ذات پات (ہندوستان میں) اور صنف میں امتیاز برتتے تھے یا جہاں ذات پات یا طبقاتی نظام رائج تھا۔ ان ملکوں میں صنعتوں اور عصری تعلیم کو فروغ دیا گیا ، اس طرح اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بقاء کو یقینی بنایا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو آزادی ، مساوات، اخوت و انصاف ایسے اقدار ہیں جو بنیاد پرستی اور قوم پرستی کے بالکل برعکس ہیں۔ عصری معاشروں میں ان اقدار کو فروغ دینا بہت ضروری ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے اقدار کو مغربی اقدار قرار دے کر ان سے دوری اختیار کی جارہی ہے۔