آر ایس ایس کو اِسرائیل کی شاباشی

   

اُننتی شرما
آج کل اسرائیلی سفارت کار کی جانب سے آر ایس ایس کی شان میں پڑھے گئے قصیدوں کے چرچے ہیں۔ (ویسے بھی 1992ء سے یہ تعلقات نقطہ عروج پر پہنچے جب پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ قربت اختیار کی۔ اگرچہ وہ کانگریس حکومت کے وزیراعظم تھے لیکن بالواسطہ طور پر انہوں نے ہی آر ایس ایس اور اسرائیل کو ایک دوسرے سے قریب کیا تھا)۔ حال ہی میں ممبئی میں متعین اسرائیلی قونصل جنرل کوبی شوشانی نے اپنے ایک انٹرویو میں آر ایس ایس کی زبردست ستائش کرتے ہوئے اسے ایک قوم پرست تنظیم اور قوم کی تعمیر میں مصروف تنظیم قرار دیا ہے۔ یہ انٹرویو سنگھ پریوار کے انگریزی ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ شوشانی نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ وہ آر ایس ایس سے کافی متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جو انسانوں کے پرامن بقائے باہم پر بڑی پختگی کے ساتھ یقین رکھتی ہے اور یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو تمام انسانوں کی پرامن موجودگی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ اسرائیل کی ستائش کی اور جواب میں اسرائیل نے بھی آر ایس ایس کو بھرپور ستائش سے نوازا۔ اگرچہ 1992ء میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات اِستوار کئے گئے لیکن سال 2014ء سے جبکہ بی جے پی نے اقتدار سنبھالا، ان تعلقات کو بہت آگے بڑھایا گیا ہے۔ مجھے آر ایس ایس قائدین کی جانب سے چلائے جارہے چند ایک پراجیکٹس کا جائزہ لینے کا بھی موقع ملا۔ آر ایس ایس کی کارکردگی اور اس کی پالیسیوں، اس کے نظریات سے کافی متاثر ہوا اور یہی چاہا کہ اس تنظیم کے بارے میں مزید جانکاری حاصل کی جائے چنانچہ اسی مقصد کے تحت میں نے آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹرس واقع ناگپور میں منعقدہ تقریب میں شرکت کی جس سے مجھے پتہ چلا کہ آر ایس ایس ایک قوم پرست تنظیم ہے اور ہندوستان کی تعمیر کے کام میں مصروف ہے۔
کجریوال اور فلم ’’دی کشمیر فائیلس‘‘
چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے ہندی فلم ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ پر جو تبصرہ کیا ہے، ہندوتوا تنظیمیں اس پر کافی برہم ہیں۔ یہ فلم دراصل 1990ء میں وادیٔ کشمیر سے پنڈتوں کی نقل مکانی (انخلا) سے متعلق ہے۔ خاص طور پر کجریوال نے دہلی اسمبلی میں اُن بی جے پی قائدین کا مضحکہ اُڑایا تھا جو ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ جیسی فلم کو دہلی میں بھی ’’ٹیکس فری‘‘ کردینے کا مطالبہ کررہے تھے، جیسا کہ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں کیا گیا۔ کجریوال کا یہ بیان سنگھ پریوار اور ہندوتوا تنظیموں کیلئے تلخ ثابت ہوا، وہ تلملاکر رہ گئی۔ ’’امر اُجالا‘‘ میں تحریر کردہ اپنے ایک مضمون میں ’’آرگنائزر‘‘ کے سابق ایڈیٹر ترون وجئے نے لکھا ’’راون بھی ایک بہت بڑا پوجا کرنے والا تھا لیکن اس نے بھگوان رام کے درد و الم کا مذاق اُڑایا اور پھر تباہ و برباد ہوگیا‘‘۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب نے اس وقت قہقہہ لگایا جب بنڈا سنگھ بہادر کے 6 سالہ بیٹے کو مغلوں نے قتل کردیا۔ آج اورنگ زیب کو تاریخ نے فراموش کردیا۔ (مغل بادشاہوں کے بارے میں جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کیا گیا اور اس طرح انہیں ظالم و جابر ثابت کیا گیا حالانکہ کوئی مسلمان بادشاہ اس طرح کی ناپسندیدہ حرکت نہیں کرسکتا) آپ کو بتادیں کہ بابا بنڈہ سنگھ بہادر 18 ویں صدی کے ایک سکھ فوجی لیڈر تھے، کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب کی موت کے 9 سال بعد بابا بنڈا سنگھ بہادر اور ان کے بیٹے کو مغل حکمراں فرخ شہریار کے دور میں سال 1716ء کے دوران اذیتیں دے کر ہلاک کردیا گیا۔
صلاحیتوں کا عدم استعمال فوائد سے محرومی کا سبب
موافق ہندو تنظیمیں ملک میں بیروزگاری کے مسئلہ کا جائزہ بھی لے رہی ہیں۔ سودیشی جاگرن منچ کے معاون کنوینر اشونی مہاجن نے اس مسئلہ پر ایک آرٹیکل لکھا ہے ، ان کا دعویٰ ہے کہ اس مسئلہ کو صرف حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، لیکن آزاد ہندوستان کی سابق حکومتوں کی جانب سے اپنائی گئی بے سمت معاشی پالیسیوں کا اثر قرار دیا جاسکتا ہے۔پہلے سوشلزم اور پھر عالمیانے اور بعد میں 1991ء کے دوران خانگیانے کے نام پر بیروزگاری بڑھانے کا کام کیا گیا، آج اس مسئلہ کے مستقل حل کی ضرورت ہے ،بجائے اس مسئلہ پر سیاست کی جائے۔ مہاجن لکھتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان ہندوستان میں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم ہندوستان کو ’’ینگستان‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں ملک میں بیروزگاری اور دوسرے مسائل ہیں ، وہ 2042ء تک باقی رہیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 15 تا 29 سال عمر کے حامل افراد کی آبادی 28% ہے، لیکن ہم اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مناسب انداز میں استعمال نہیں کررہے ہیں۔ اس طرح آبادی کے جو فوائد ہیں، وہ کسی کام کے نہیں رہے۔