ہائے رے انسان کی مجبوریاں
پاس رہ کر بھی ہے کتنی دوریاں
میڈیا میں ان دنوں آر ایس ایس اور بی جے پی کے مابین دوریوں اور اختلافات کے تذکرے چل رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ اندریش کمار کے بیانات کا حوالہ دیا جا رہا ہے ۔ یہ درست ہے کہ ان دونوں نے بی جے پی کو بالواسطہ نشانہ بناتے ہوئے ریمارکس کئے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے ۔ اس سے قبل بھی بی جے پی کے تعلق سے آر ایس ایس قائدین کے کئی بیانات سامنے آئے تھے ۔ تاہم ایک بات تمام بیانوں میں مشترکہ ہوتی ہے کہ بی جے پی پرجو تنقید ہوتی ہے وہ راست نہیں ہوتی ۔ بالواسطہ طور پر یا پھر اشاروں میں یہ تنقیدیں کی جاتی ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنا کام کرلیا ہے ۔ وہ در اصل بی جے پی کو کوئی پیام دینا نہیں چاہتے بلکہ ملک کے عوام کے نام یہ پیام رہتا ہے تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ جہاں ملک کے عوام نے بی جے پی پر کامل یقین کا اظہار نہیں کیا ہے اور مودی پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوگیا وہیں سنگھ یا آر ایس ایس بھی بی جے پی کی کارکردگی یا قیادت کے طرز عمل سے مطمئن نہیں ہے ۔ سنگھ اور بی جے پی ایک دوسرے کے تعلق سے کبھی بھی کھل کر سر عام بیان بازیاں نہیںکرتے ۔ ایک دوسرے کو جو پیام دینا ہوتا ہے اس کیلئے ان کے چیانلس موجود ہیں۔ کچھ قائدین ہیں جو دونوں میںرابطوں کا کام کرتے ہیں ۔ ان کے اپنے قائدین کے ذریعہ ایک دوسرے کو پیامات روانہ کئے جاتے ہیں۔ تاہم اس بار جو بیان بازی کی جا رہی ہے وہ بھی ایک حکمت عملی کا حصہ ہی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس حکمت عملی کے باوجود سنگھ کے بیانات سے مودی یا بی جے پی کی مقبولیت پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے ۔ اسی حکمت عملی کے ذریعہ ایک طرح سے ملک کے عوام کو سنگھ سے جوڑے رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جہاں بی جے پی کی عوامی تائید میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور خود نریندر مودی اپنے حلقہ انتخاب میں کافی کم اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں ایسے میں سنگھ کو اپنی عوامی مقبولیت کی فکر لاحق ہوئی ہے اور اسی لئے یہ بیان بازی کی جا رہی ہے ۔ اس کے بین السطور میں زیادہ کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔
جہاں تک بی جے پی قائدین کا سوال ہے تو یہ حقیقت ہے کہ یہ قائدین گھمنڈ اور تکبر کا شکار ہوگئے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ملک میں اب کی بار 400 پار کا نعرہ دیا گیا تھا ۔ یہ کہا گیا تھا کہ مودی ہے تو سب کچھ ممکن ہے ۔ عوام نے بی جے پی کی آنکھیں کھول دیں۔ خود نریندر مودی اپنے ہی حلقہ میں تین لاکھ سے زائد ووٹرس کے اعتماد سے محروم ہوگئے ۔ گذشتہ انتخابات میں وہ ساڑھے چار لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے اور اس بار انہیںصرف دیڑھ لاکھ ووٹوں کی اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔نریندرمودی کے خلاف مقابلہ کرتے ہوئے یو پی میں کانگریس کے صدر اجئے رائے نے چار لاکھ سے زائد ووٹ لئے ہیں۔ اسی سے انداز ہ ہوتا ہے کہ مودی اور بی جے پی پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوگیا ہے ۔ بی جے پی جس ریاست سے سب سے زیادہ مطمئن تھی وہ اترپردیش ریاست تھی ۔ اسی ریاست میں بی جے پی کو عوام نے مسترد کردیا اور اسے نشستوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ڈھکیل دیا جبکہ سماجوادی پارٹی نے بی جے پی سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ بی جے پی نے جس طرح سے رام مندر کا تعمیر کی تکمیل سے اقبل افتتاح کروایا اس کے مقاصد بھی واضح تھے تاہم خود فیض آباد حلقہ سے بی جے پی کو شکست ہوگئی ۔ اترپردیش کے عوام نے فرقہ واریت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا تھا ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو اب اترپردیش اسمبلی انتخابات کی فکر لاحق ہوگئی ہے اور یہ لوگ اسی وجہ سے فوری سرگرم ہوتے نظر آر ہے ہیں۔ عوام کی نظروں میں ہر دو اپنے اپنے موقف کو بحال کرنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتا ہے ۔
جس طرح سے سنگھ اور بی جے پی کے مابین انتخابی مہم کے دوران ہی سے بیان بازیاں شروع ہوگئی تھیں۔ کہا جا رہا تھا کہ سنگھ کو بی جے پی امکانی شکست کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں اسی لئے یہ بیان بازی ہور ہی ہے ۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے سنگھ کے خلاف لب کشائی کی تھی ۔ اب سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اور ایم آر ایم سربراہ اندریش کمار نے بھی بی جے پی کو بالواسطہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے تو یہ ان کی حکمت عملی کا حصہ ہوسکتا ہے کیونکہ دونوں ہی اترپردیش میں عوامی اعتماد کی محرومی سے متفکر ہیں اور انہیں ملک کی اس سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست میں اپنے اقتدار کو بچانا چاہتے ہیں۔
نیٹ پر فیصلہ ضروری
ملک بھر میں میڈیکل کورسیس میں داخلوں کیلئے نیٹ امتحان کا مسئلہ اب مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالانکہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوگیا ہے اور عدالت ہی اس پر کوئی قطعی فیصلہ کرے گی تاہم اس معاملے میں نیٹ امتحان کا انعقاد عمل میں لانے والی اتھاریٹی نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی کو ایک واضح موقف اختیار کرتے ہوئے عدالت کو اس سے واقف کروانا چاہئے ۔ جس طرح کے انکشافات ہوئے ہیں ان سے واضح ہوگیا ہے کہ چند مٹھی بھر افراد نے لاکھوں طلبا و طالبات کے مستقبل سے کھلواڑ کیا ہے ۔ کسی کو اپنی مرضی سے کچھ نشانات دیدئے ۔ کسی کو تاخیر سے امتحان لکھنے کی اجازت دی ۔ کسی کو ایک منٹ کی تاخیر پر بھی باہرکردیا گیا اور کئی طلبا کو من مانی نشانات دیدئے گئے ۔ ایسے نشانات دئے گئے جو ممکن ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ محض ایک کوچنگ سنٹر کے سات امیدواروں کو ایک ہی رینک دیا گیا ۔ یہ سب کچھ ایسے امور ہیں جن سے نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی کی نا اہلی اور مبینہ بدعنوانیوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اس معاملے میں ایجنسی کو کسی طرح کی انا کا شکار ہوئے بغیر لاکھوں طلبا کے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے واضح موقف اختیار کرنے اور طلبا کے حق میں فوری کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔