تلنگانہ آر ٹی سی ملازمین نے اپنی 52 روزہ ہڑتال ختم کر کے ڈیوٹی پر رجوع ہونے کی کوش کی تو انہیں حراست میں لے لیا جارہا ہے ۔ انتظامیہ نے اپنے 48000 ملازمین کو واپس ڈیوٹی پر لینے سے انکار کردیا ۔ 5 اکٹوبر سے شروع کردہ اس ہڑتال کو اپوزیشن پارٹیوں خاص کر بی جے پی کی تائید حاصل تھی ۔ آر ٹی سی انتظامیہ نے ملازمین کو ڈیوٹی پر بحال کرنے سے اس لیے انکار کردیا کیوں کہ یہ کیس عدالت میں زیر دوراں ہے ۔ عدالت میں ایک سے زائد مفاد عامہ کی درخواستیں ہیں ان میں سے ایک درخواست ٹی آر ایس آر ٹی سی کو خانگیانے کی کوشش کے خلاف بھی ہے ۔ ہائی کورٹ نے کابینہ کے فیصلہ کی کاپی طلب کرتے ہوئے سماعت کو ملتوی کردیا ۔ ہڑتال ختم کر کے کام پر آنے کی کوشش کرنے والے ملازمین کے مسائل اب بھی حل نہیں ہوئے ہیں ۔ اس مسئلہ میںکئی الجھنیں پائے جاتے ہیں ۔ آر ٹی سی کو پہلے ہی سے خسارہ کا سامنا ہے ۔ اس ہڑتال کی وجہ سے روزانہ 2 تا 6 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ہڑتالی ملازمین کو ڈیوٹی پر رجوع ہونے کی مہلت دی تھی لیکن آر ٹی سی یونینوں کی ضد نے کئی ملازمین کے روزگار کو خطرہ میں ڈالدیا ۔ ٹی ایس آر ٹی سی کے منیجنگ ڈائرکٹر نے واضح کہا کہ اب واپس ہونے والے ملازمین کو کام پر نہیں لیا جائے گا کیوں کہ ان کی یہ ہڑتال غیر قانونی تھی ۔ ہڑتال کے دوران بھی ملازمین کو سیکوریٹی کی طاقت سے نشانہ بنایا گیا ۔ اب ہڑتال ختم ہونے کے بعد بھی تمام ڈپوز میں بھاری سیکوریٹی انتظامات کر کے گرفتاریاں عمل میں لاتے ہوئے طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس وقت اپوزیشن کا رول اقتدار کی طاقت کے آگے سرد پڑتا دکھائی دے رہا ہے ۔ آر ٹی سی ملازمین کے مسائل حل ہونے کے بجائے یہ مزید پیچیدہ بنا دئیے جارہے ہیں ۔ مسائل کی یکسوئی کے لیے آر ٹی سی ملازمین نے بھی صبر سے کام نہیں لیا اور اب حکومت اپنی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملازمین کو مزید پریشان کررہی ہے اب آر ٹی سی ملازمین کے حق میں اتنی قوتیں نہیں جتنی خلاف ہیں ۔ کیا اس حکومت کے پاس ہمدردی کا کوئی دل ہی نہیں ہے ۔ یہ حکومت ملازمین کی چند نادانیوں کے لیے اتنی بڑی سزا دینا چاہتی ہے اور انہیں روزگار سے جدا کرنا چاہتی ہے ۔ حکومت کو اپنی انا اور آر ٹی سی ملازمین کے رویہ کے تناظر میں ریاستی مفادات کو یاد رکھنا چاہئے ۔ حکومت نے ریاست میں 50 فیصد روٹس کو خانگیانے کی تجویز پر عمل کرنے کا ارادہ کیا ہے تو یہ کنٹراکٹ کی بنیاد پر ہوگا یا اس کو مستقل کیا جائے گا ۔ اس طرح کی تجویز سے برسوں خدمت انجام دینے والے آر ٹی سی ملازمین کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے تو یہ ایک بڑی بدبختی کی بات ہوگی ۔ آر ٹی سی کو بہر حال عوام کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا لیکن حکومت اس عوامی خدمت کے شعبہ کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے تو عوام کو خانگی سرویس سے استفادہ کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا اور خانگیانے کے بعد سفری اخراجات میں اضافہ کا بوجھ عوام پر ہی پڑے گا ۔ آر ٹی سی کو خانگیانے کے خلاف چند مفاد عامہ کی درخواستیں عدالت میں زیر التواء ہیں تو حکومت آر ٹی سی کو خانگیانے کا عمل پورا کرسکے گی ، یہ غور طلب بات ہے ۔ صرف 50 فیصد روٹس کو خانگیانے کے ذریعہ حکومت موٹر وہیکل ترمیمی قانون 2019 سے مکمل استفادہ کرنا چاہتی ہے ۔ اگر حکومت کا موقف اس قدر سخت ہوتا جائے تو اس سے عوامی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور ملازمین کا مستقبل تاریک ہوگا ۔ آر ٹی سی کو پہلے ہی سے خسارہ کا سامنا ہے اور اب مزید سنگین صورتحال پیدا ہوگی ۔ لہذا حکومت اور آر ٹی سی انتظامیہ ہمدردانہ طریقہ سے اس مسئلہ کو حل کرتے ہوئے فوری آر ٹی سی سرویس کو بحال کرے تاکہ عام شہریوں کو گذشتہ 52 روز سے جاری پریشانیوں سے نجات مل سکے ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ناحق دی جانے والی اذیت سے چھٹکارا دلائے ۔۔