آزادي ہند کے بعد کیا ہوا؟ ” مولانا ابولکلام آزاد

,

   

   آزادی ہند کے بعد سرزمین ہند پر سب سے بڑا زخم اس کی تقسیم کا تھا، جہاں صحیح اور غلط کے سارے امتیازات مٹی میں مل گئے تھے، دانشوروں کا طبقہ بھی حیران و ششدر تھا، ایسی ہماہمی تھی کہ نہ کچھ سوجھتا تھا اور نہ سمجھ آتا تھا،پورا ہندوستان اور بالخصوص مسلمان تسبیح کے دانہ کی طرح بکھر کر رہ گئے تھے، چنانچہ ١٩٤٧ء میں ملک کی تقسیم کے بعد جو قیامت خیز واقعات پیش آئے تھے، اس نے مسلمانوں کو خوف زدہ کر رکھا تھا ایسے میں جب دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں کا جلسہ عام ہوا تو مولانا نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :”آج زلزلوں سے ڈرتے ہو۔کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو۔ کیا یاد نہیں رہا کہ تمہارا وجود ایک اُجالا تھا۔ یہ بادلوں کے پانی کی سیل کیا ہے کہ تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائینچے چڑھا لئے ہیں۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اُتر گئے۔ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو اُن پر مسکرائے۔ بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا۔ باد صرصر اُٹھی تو رُخ پھیر دیا۔ آندھیاں آئیں تو اُن سے کہا۔ تمہارا راستہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایمان کی جانکنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے ہی گریبان کے تار بیچ رہے ہیں اور خدا سے اِس درجہ غافل ہو گئے ہیں کہ جیسے اُس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا ۔

    (مولانا ابو الکلام آزاد)